بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
مدت ہی میں ۱۰؍ہجری میں حضرت ابراہیم کی وفات ہوگئی تھی۔(سیرت النبی:۱/۳۲۸، سیرت احمد مجتبی:۳/۲۸۲)حضرت زینبؓ بنت الرسول کی وفات اسی سال آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سب سے بڑی صاحب زادی حضرت زینبؓ زوجہ ابوالعاصؓ کی وفات کا الم ناک واقعہ بھی پیش آیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی جنازہ کی نماز پڑھائی اور اَشک بار آنکھوں اور غمزدہ دل کے ساتھ انہیں قبر میں اتارا، اور ان کے حق میں دعا فرمائی۔(ایضاً)کعب بن زہیر کی غلامانہ حاضری عمرۂ جعرانہ سے واپسی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرب کے عظیم شاعر کعب بن زہیر کو لایا گیا، یہ نامی گرامی شاعر تھے، مگر انہوں نے اپنی اس شعری صلاحیت کا استعمال اسلام دشمنی اور ہجو رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے کررکھا تھا، یہ ان مجرموں کی فہرست میں تھے جن کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ حکم فتح مکہ کے موقع پر جاری ہوا تھا کہ اگر وہ خانۂ کعبہ کا پردہ بھی پکڑے ہوئے ہوں تو بھی ان کی گردن ماردی جائے، اعلانِ قتل سن کر کعب جان بچانے کے لئے بھاگ کھڑے ہوئے۔ بالآخر ؎ نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نوازمیں کعب آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے دامن رحمت میں حاضر ہوتے ہیں ، عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ کے رسول: کعب بن زہیر توبہ کرکے مسلمان ہوگیا ہے، آپ سے امن کا خواست گار ہے، اس کے لئے معافی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کیوں نہیں ؟ کعب نے عرض کیا: وہ غلام میں ہی ہوں ، اس کے بعد کعب نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان اور منقبت میں اپنا معروف قصیدہ پڑھا، جسے ’’قصیدۂ بانت سعاد‘‘ کہا جاتا ہے، یہ قصیدہ زمانۂ جاہلیت کی شاعری کا اعلیٰ نمونہ اور قصیدہ