بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
قلعہ کی دیواروں میں شگاف ڈالنے کی مختلف تدبیریں اور کوششیں بھی ہوئیں ، افہام وتفہیم کے مرحلے بھی آئے، دشمنوں نے قلعے کے اوپر سے تیروں کی سخت بارش کی، جس سے ۱۲؍مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ اعلان بھی کرایا کہ جو طائف کے قلعے سے اترکر ہمارے پاس آجائے گا اسے آزاد ورہا کردیا جائے گا، دس سے زائد افراد اتر آئے اور انہیں آزادی دے دی گئی، انہیں میں حضرت نفیع بن الحارث بھی تھے، جنہیں بعد میں ابوبکرہ کے نام سے شہرت ہوئی۔ (فتح الباری:۸/۴۵) بہرحال یہ قلعہ فتح نہیں ہوسکا، اشارۂ غیبی بھی یہ ہوا کہ اس وقت یہ مہم ختم کردی جائے۔(شرح الزرقانی:۳/۲۸، طبری:۱/۴۲۳) چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے واپسی کا سفر شروع فرمادیا، اس موقع پر حضرت عمرؓ نے اہل طائف کے حق میں بددعا کی درخواست کی، مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے بجائے یہ دعا مانگی: اللّٰہُمَّ اہْدِ ثَقِیْفًا وَائْتِ بِہِمْ۔ خدایا ثقیف کو ہدایت عطا فرمائیے اور میرے پاس پہنچادیجئے۔ بالآخر ایسا ہی ہوا تھا، بعد میں یہ قلعہ خود فتح ہوا اور سبھی لوگ مدینہ منورہ آکر حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے، جن میں سردار مالک بن عوف بھی تھے۔ (طبقات ابن سعد:۲/۱۱۵)تقسیم اموال غنیمت واپسی میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم مقام ’’جعرانہ‘‘ پہنچے، یہاں حنین کے اموال غنیمت کی تقسیم کا عمل انجام پایا، اس سے پہلے تقریباً دس دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل ہوازن کا انتظار کیا کہ شاید وہ اپنے اموال کی واپسی کے لئے آئیں ، مگر ان کے نہ آنے پر سارا مال تقسیم کردیا گیا،اس کے بعد وہ آئے اور مال کی واپسی کی درخواست اور اپنی قرابت کا واسطہ دیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ سے مشورہ فرمایا، جس میں یہ طے ہوا کہ مال تو واپس نہیں کیا جائے گا؛ البتہ قیدی واپس کردئے جائیں گے، چناں چہ ایسا ہی ہوا۔(بخاری:فرض الخمس: باب و من الدلیل علیٰ ان الخمس لنوائب المسلمین،سیرت ابن ہشام:۴/۱۳۵، فتح الباری:۸/۳۸)