بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہتھیار رکھ دئے، ابھی فرشتوں نے ہتھیار نہیں رکھے ہیں ، اٹھئے اور بنو قریظہ کا رخ کیجئے۔ (بخاری: المغازی: باب مرجع النبی من الاحزاب) یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ۲۳ذی قعدہ ۵؍ہجری بدھ کے دن ظہر کے بعد صحابہ کو بنوقریظہ کے علاقے میں جانے کا حکم دے دیا، اور فرمایا کہ عصر کی نماز وہیں ہوگی، عصر کے بعد بنوقریظہ کا محاصرہ ہوا، محاصرہ ۲۵؍روز تک طویل ہوگیا، بالآخر بنوقریظہ نے ہتھیار ڈال دئے، اور قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ کو اپنے لئے حکم تجویز کیا، حضرت سعد موت وحیات کی کشمکش میں تھے، خندق میں وہ زخمی ہوئے تھے، جس کا ذکر آچکا ہے، انہوں نے فیصلہ سنایا کہ بنوقریظہ کے لڑنے والے مردوں کو قتل کردیا جائے، عورتوں اور بچوں کو گرفتار کرلیا جائے، اور ان کے اموال کو غنیمت کے طور پر مجاہدین میں تقسیم کردیا جائے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اے سعد! تمہارا یہ فیصلہ بالکل اللہ کی منشاء کے مطابق ہے۔ (بخاری: المغازی: باب مرجع النبی) چناں چہ اسی فیصلے کے مطابق عمل کیا گیا اور یہود کا یہ قبیلہ اپنی مسلسل سازشوں ، عہدشکنی اور جرائم کے نتیجے میں کیفر کردار تک پہنچا۔ (دیکھئے: ابن ہشام:۲/۲۳۳الخ، زاد المعاد:۲/۱۷۲الخ)حضرت زینب بنت جحشؓ سے نکاح اور جاہلیت کی رسم کا ابطال ۵؍ہجری میں ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحش سے عقد فرمایا، پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہی حضرت زینب کا نکاح اپنے متبنیٰ حضرت زید بن حارثہ سے کیا تھا، مگرتوافق نہ ہوسکنے کی وجہ سے طلاق کی نوبت آگئی، جاہلیت کی رسم کے مطابق متبنیٰ بیٹا سگے بیٹے کی طرح ہوتا تھا، اور اس کی مطلقہ سے شادی ممنوع تھی، اسلام نے اس جاہلانہ رسم کو توڑا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے متبنیٰ کی مطلقہ سے عقد فرماکر عملاً اس رسم کا ابطال فرمایا۔ (سیرت النبی:۱/۲۷۱-۲۷۲، سیرت المصطفی:۲/۳۳۲)