بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے عقد میں آنے والی آخری خاتون ہیں ، ان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی اور خاتون سے عقد نہیں فرمایا۔ (جوامع السیرۃ: لابن حرم:۲۳۶، سیرالصحابۃ:۶/۸۷)غزوہ ذات الرقاع مشہور قول کے مطابق اسی سال غزوۂ ذات الرقاع پیش آیا، یہ غزوہ موقع بموقع لوٹ مار، ڈکیتی، قتل کرنے اور شورش پھیلانے والے صحرائی بدؤوں (جو غطفانی قبائل کے زیر اثر تھے) کی سرکوبی اور ان کو مرعوب کرنے کے لئے ہوا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم ۴۰۰؍صحابہ کے ساتھ سفر جہاد پر نکلے۔ (سیرت ابن ہشام:۳/۲۱۳، المغازی للواقدی:۱/۳۳۳) پیدل چلنے کی وجہ سے مجاہدین کے پاؤں پھٹ گئے تھے، ایڑیاں چھل گئی تھیں ، بعض کے ناخن تک گرگئے تھے، صحابہ نے ان پر پٹیاں باندھ لی تھیں ، اس لئے اس کا نام ’’ذات الرقاع‘‘ (چیتھڑوں والی لڑائی) ہوگیا، اس معرکہ میں ایک موقع پر دشمن کا سامنا ہوا، مگر جنگ نہیں ہوئی، اسی موقع پر ’’صلوٰۃ الخوف‘‘ مشروع ہوئی۔ (بخاری:المغازی: باب غزوۃ ذات الرقاع) مقصد حاصل ہوچکا تھا اور دشمن مرعوب ہوچکا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم واپس ہوئے، راستے میں ایک جگہ رات کا قیام ہوا، دشمن کے خطرات تھے، دوپہرے دار متعین ہوئے: (۱) عباد بن بشر (۲) عمار بن یاسر،حضرت عباد اپنی باری میں تہجد ادا کرنے لگے، سورۂ یوسف کی تلاوت فرمارہے تھے؛ تاک کر دشمن نے تیر مارا، کئی تیر لگے، خون بہہ پڑا، مگر نماز وتلاوت کی لذت وکیف نے عباد کو نماز نہ توڑنے دیا، حضرت عمار بن یاسر نے اٹھ کر دیکھا تو مرہم پٹی کی۔ (زاد المعاد:۲/۱۱۲الخ) mvm