بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
حالت نماز میں اوجھ ڈالے جانے کاظلم پھر اسی پانچویں سال میں حرم مکی کے صحن میں یہ بدبختانہ واقعہ بھی تاریخ نے ریکارڈ کیا کہ صنادید قریش اکٹھا ہیں ، محمد رسول صلی اللہ علیہ و سلم للہ انماز میں ہیں ، ابوجہل کے کہنے پر اونٹ کی اوجھ لائی جارہی ہے، مشرکین میں سب سے بدبخت انسان عقبہ بن ابی معیط حالت سجدہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر اوجھ لاد رہا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اس واقعہ کے چشم دید شاہد ہیں ، حضور ااٹھ نہیں پارہے ہیں ،حضرت فاطمہؓ آتی ہیں ، اوجھ ہٹاتی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اٹھتے ہیں ، مظلومیت کے عالم میں ہاتھ رب کے دربار میں اٹھتے ہیں ، اے اللہ یہ مجرم، نماز بھی نہیں پڑھنے دے رہے ہیں ، انہیں تیرے سامنے سجدہ بھی گوارا نہیں ، اے اللہ قریش کو کیفر کردار تک پہونچایئے، اے اللہ: ابو جہل ، عتبہ، شیبہ، ولید وغیرہ کو ہلاک کردیجئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سات بدنصیبوں کو بد دعا دی، حضرت ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے ان ساتوں کو مقتول پایا۔( بخاری: الجہاد: باب الدعاء علی المشرکین)ہجرت حبشہ یہ سال اہل حق کے لئے بہت مشکل گذرا ہے، ظلم وستم نے عرصۂ حیات تنگ کردیا ہے، بالآخر ہجرتِ حبشہ کی اجازت ملی ہے، حبشہ (ایتھوپیا) کے بارے میں شہرت تھی کہ وہاں حکومت نے عدل وانصاف کے اصول مضبوطی سے اپنا رکھے ہیں ، وہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا، چنانچہ رجب ۵؍ نبوی میں حضرت عثمان سمیت کل ۱۲؍مرد اور حضرت عثمان کی بیوی بنت الرسول حضرت رقیہؓ سمیت ۴؍عورتیں حبش کی ہجرت کے سفر پر روانہ ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لوط علیہ السلام کے بعد یہ پہلا گھرانہ ہے جس نے راہ خدا میں ہجرت کی ہے۔ (دلائل النبوۃ: بیہقی: ۲/۲۹۷، فتح الباری:۷/۲۳۷)