بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
فتح مکہ اب ہم اس مجلس کی آخری منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں ،تاریخ اسلامی میں ’’فتح مکہ‘‘ کا واقعہ بے انتہا اہمیت کا حامل اور فکر انگیز واقعہ ہے۔مشرکین کی عہد شکنی حدیبیہ کے معاہدہ نامے کی ایک دفعہ یہ بھی تھی کہ عرب کے جو قبائل مسلمانوں سے اتحاد کرنا چاہیں کرلیں ، اور جو قریش کے ساتھ شامل ہونا چاہیں شامل ہوجائیں ، چناں چہ قبیلہ بنوخزاعہ کے لوگ مسلمانوں کے اتحادی بن گئے اور قبیلہ بنوبکر قریش کے ساتھ رہا۔ ابھی اس معاہدے کو دو برس بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ بنوبکر نے بنوخزاعہ کے ۲۰؍افراد کو شب خون مارکر قتل کرڈالا، یہ مظلومین حرم میں پناہ گزیں ہوئے، تو وہاں بھی ان پر ظلم ہوا، انہوں نے اللہ کا واسطہ بھی دیا تو اس پر یہ گستاخانہ جواب بھی ملا: لَاإِلٰہَ الْیَوْمَ۔ آج خدا کوئی چیز نہیں ۔ قریش نے اس پورے قضیہ میں بنوبکر کی پوری مدد کی۔ (سیرۃ المصطفیٰ:۳/۳۳الخ بحوالہ شرح معانی الآثار: للطحاوی، الرحیق صلی اللہ علیہ و سلم لمختوم:۶۱۶) بنوخزاعہ نے داستانِ مظلومیت مدینہ آکر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سنائی،اور مدد کے طلب گار ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی مدد کی یقین دہانی کرائی، اور اس کے بعد قریش کو پیغام بھجوایا، جس میں ان کے سامنے تین صورتیں رکھیں :