بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
عاشق صحابہ کی جانبازی اس نازک موقع پر صحابہ نے اپنی جاں بازی کی آخری مثال قائم کردی، حضرت سعد نے اپنے ترکش کے تمام تیر دفاع رسول اکے لئے وقف کردئے تھے، آقا صلی اللہ علیہ و سلم ان کو تیر چلاتا دیکھ کر فرماتے تھے: اِرْمِ یَا سَعْدُ فِدَاکَ أَبِيْ وَأُمِّیْ۔ اے سعد : تیر چلاؤ ، تم پرمیرے ماں باپ قربان ہوں ۔ (بخاری: المغازی: باب اذ ہمت طائفتان) اس جملہ میں جو اعزاز وشرف مضمر ہے وہ حضرت سعد کا نصیب بنا، حضرت طلحہ نے احد کے اس معرکہ میں اور دفاعِ رسول امیں بے نظیر قربانیاں پیش کیں ،روایات میں آتا ہے کہ احد کے دن انہیں ۳۹؍زخم آئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر دشمن کے حملے اپنے ہاتھ پر روکتے رہنے کی وجہ سے ان کا ہاتھ شل ہوگیا تھا۔ (بخاری: المغازی: باب اذ ہمت طائفتان) اور انگلیاں لہولہان ہوگئی تھیں ، آقا افرماتے تھے: یہ جنگ کل کی کل طلحہ کے لئے تھی اور جو روئے زمین پر چلتا ہوا شہید دیکھنا چاہے وہ طلحہ کو دیکھ لے۔ (فتح الباری:۷/۳۶۱، مشکوۃ المصابیح:المناقب:باب جامع المناقب) اس معرکے میں ۷۰؍صحابہ نے جام شہادت نوش کیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قتل کی افواہ حضرت مصعب بن عمیر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی کافی شباہت رکھتے تھے، انہیں شہید کیا گیا، کسی دشمن نے یہ افواہ پھیلادی کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم للہا شہید کردئے گئے ہیں ، یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور مسلمانوں پر سکتہ سا طاری ہوگیا، کچھ لوگ کہنے لگے کہ اگرمحمد صلی اللہ علیہ و سلم شہید کردئے گئے تو ہمیں جینے کا کیا حق ہے؟