بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اِدْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ، فَإِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ۔ ( حم السجدہ/۳۴-۳۵) تم برائی کا دفاع اچھائی سے کرو، اس کے نتیجے میں تمہار ادشمن جگری دوست بن جائے گا، مگر یہ جو ہر صرف انہیں کوملتا ہے جو صبر سے کام لیتے ہوں اور جو بڑے نصیب والے ہوں ۔شکست سے مکہ میں ماتم بدر کے میدان میں ذلت آمیز اور عبرت ناک ہزیمت کے بعدمشرکین بدحواس اور پریشان حال مکہ پہنچ رہے ہیں ، پورا مکہ ماتم کدہ بنا ہوا ہے ، شکست خوردہ قریشیوں میں سب سے پہلے مکہ پہنچنے والا عیسمان خزاعی تھا، اس نے شکست اور تمام سرداروں کے قتل کی داستان سنائی، صفوان بن امیہ نے داستان سن کر کہا کہ یہ شخص ماؤ ف ہوگیا ہے ۔ (سیرت ابن ہشام :۲/ ۶۴۶، البدایۃ والنہایۃ :۳/۳۲۱) اتنے میں ابوسفیان بن الحارث مکہ پہنچا، ابو لہب نے ان سے پوچھا کیا ہوا؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہاں نظارہ ہی کچھ اور تھا، وہاں ایسے لوگ نظر آرہے تھے جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے، خدا کی قسم: ان کے سامنے تو کوئی ٹک ہی نہیں سکتا تھا۔ (سیرت المصطفیٰ:۲/۲۲۱) رسول صلی اللہ علیہ و سلم للہا کے مولیٰ ابو رافع فرماتے ہیں : میں ان دنوں حضرت عباس کا غلام تھا، حضرت عباس اور ان کی اہلیہ ام الفضل اور میں تینوں مسلمان ہوچکے تھے، ہم نے اپنا اسلام چھپارکھا تھا، ابو سفیان کی بات سن کر مجھ سے رہا نہیں گیا، میں باہر آیا اور کہا کہ خدا کی قسم وہ تو فرشتے تھے ۔ یہ سن کر ابو لہب کو طیش آیا، اس نے زور سے ابورافع کو طمانچہ مارا، اس واقعے کے