بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی تلاش میں معرکۂ احد کے بعد آقا صلی اللہ علیہ و سلم خود نکلے ہیں ، بطن وادی میں ان کا مثلہ شدہ لاشہ دیکھ کر قابو نہ رہا، دل بھر آیا، آنکھیں اشک بار ہیں ، ہچکی بندھ گئی ہے، زبان نبوت سے حمزہ کو’’ اَسَدُ اللّٰہِ وَاَسَدُ رَسُوْلِہِ‘‘ (اللہ ورسول کا شیر) کا لقب عطا ہوا ہے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی کو بعد میں اپنے عمل پر ندامت ہوتی ہے، انہوں نے آکر بارگاہِ نبوت میں قبول اسلام کیا ہے، کسی نے اس موقع پر عرض کیا کہ یا رسول صلی اللہ علیہ و سلم ! یہ تو حمزہ کا قاتل ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا: دَعُوْہُ، فَإِسْلامُ رَجُلٍ أَحَبُّ إِليَّ مِنْ قَتْلِ أَلْفِ کَافِرٍ۔ اس کو چھوڑدو، ایک شخص کا قبول اسلام میرے نزدیک ہزار کافروں کے قتل سے زیادہ محبوب ہے۔ (فتح الباری:۷/۲۸۴ الخ، نقوش: رسول نمبر:۱۱/۳۵۱) غور فرمائیے! یہ ہے پیغمبر علیہ السلام کے دل اور ظرف کی وسعت، یہ ہے قاتلوں اور دشمنوں کو معاف کردینا، پیغمبر اکا یہ کردار قیامت تک کے لئے نمونہ ہے۔پہلے مرحلے میں دشمنوں کی شکست احد کامعرکہ برپا ہے، مسلمانوں کی صفیں ایمان کی روح سے لبریز ہیں ، دشمنوں کے لشکر پر مسلمان مجاہدین اس سیل رواں کی مانند ٹوٹے پڑ رہے ہیں جس کے آگے کوئی بند نہیں لگ پارہا ہے، مشرکین کے حوصلے ٹوٹ گئے ہیں ، ان کی ہمت جواب دے گئی ہے، وہ بکھرنے لگے ہیں ، اب انہوں نے پسپا ہونا شروع کردیا ہے، اور فرار کا راستہ اختیار کررہے ہیں ، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ: مشرکین میں بھگدڑ مچ گئی تھی، میں نے دیکھا کہ ان کی عورتیں پنڈلیوں سے کپڑے اٹھائے تیزی سے بھاگ رہی ہیں ، ان کے پازیب دکھائی دے رہے ہیں ۔(بخاری: المغازی: باب غزوۃ احد)دوچار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا بس اسی مرحلے میں تیر انداز دستے کی طرف سے ایک ہولناک غلطی سرزد ہوئی، اور