بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کااضطراب اور شریک حیات کا انداز تسلی پہلی وحی کے نزول کے بعدآپ صلی اللہ علیہ و سلم حیران وپریشان واپس آرہے ہیں ، اور اپنے گھر والوں سے فرمارہے ہیں کہ مجھے کمبل اوڑھاؤ،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کمبل اوڑھایا گیا، کچھ دیر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو قرار آیااور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوری داستان حضرت خدیجہ کو سنائی، اس کے جواب میں حضرت خدیجہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حسن کردار کی پاکیزہ تصویر کشی کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی اور کہا: کَلاَّ وَاللّٰہِ مَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ أَبَدًا،اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتُکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ،وَ تَحْمِلْ الْکَلَّ، وَ تَقِرْی الضَّیْفَ، وَتُعِیْنُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّ۔ ہر گز آپ کو اللہ رسوا ،بے یار ومددگار اور غمزدہ نہیں کرے گا، آپ تو رشتوں کو جوڑتے ہیں ،نادار کو کمائی سے لگاتے ہیں ، کمزوروں کابوجھ اٹھاتے ہیں ،مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہ حق کی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔(بخاری: الوحی)کردار نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی اچھوتی تصویر نبی اکے کردار کی اس سے پاکیزہ کیا تصویر ہوسکتی ہے، یہ قبل از نبوت زندگی کے کردار کی تصویر ہے۔ تَصِلُ الرَّحِمَ:صلہ رحمی،آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کو بھی جوڑتے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے جڑتے تھے اور ان کو بھی جوڑتے تھے جوآپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کٹتے تھے،تمام اخلاقی معلموں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ امتیاز تسلیم شدہ ہے۔ تُکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ:معاشی اعتبار سے مفلس لوگوں کو سہارا دے دینا، غربت کا استحصال کرنے کے بجائے، سود کے نام پر غریبوں کا خون چوسنے کے بجائے قوم کے بے سہاروں کو معاشی سہارا دینا، یہ پیغمبر اکے کردار کا نمایاں پہلو ہے، یہ ایک قومی نہیں ؛ بلکہ انسانی مسئلہ ہے۔