بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
جنگ میں شرکت نہ کرسکنے کی صورت میں ان لوگوں پر کوئی مواخذہ نہیں جنہوں نے آپ سے سواریاں بہم پہنچانے کی درخواست کی تھی، آپ نے کہا تھا کہ میرے پاس تو تمہاری سواریوں کا انتظام نہیں ہے، وہ اس حالت میں مجبوراً واپس ہوئے تھے کہ آنکھوں سے آنسو جاری تھے، اور انہیں اس کا بڑا رنج تھا کہ وہ اپنے خرچ پر شریک جہاد ہونے کی قدرت نہیں رکھتے۔(سیرت احمد مجتبی:۳/۳۰۲)حضرت علیہ بن یزیدؓ کی عجیب دعا جماعت صحابہ میں ایک جاں نثار حضرت علیّہ بن یزیدؓ بھی ہیں ، دل جہاد کے لئے تڑپ رہا ہے، سواری نہیں ہے، وہ دیکھ رہے ہیں کہ سواری مانگنے والے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے دربار سے نامراد لوٹ رہے ہیں ، ان سے رہا نہیں جاتا، تہجد کا وقت ہے، نورانی فضا ہے، علیّہ اپنے رب کی بارگاہ میں دست دعا دراز کئے ہوئے بہتے آنسوؤں کے ساتھ عرض گذار ہیں : الٰہ صلی اللہ علیہ و سلم لعالمین! آپ کی راہ میں نکلنے کی ساعت آچکی ہے، جہاد کا وقت قریب ہے، آپ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم جہاد کی ترغیب دے رہے ہیں ، مگر آقا: میں بالکل خالی ہاتھ ہوں ، رسولِ خداا کے پاس بھی کچھ نہیں ہے، خداوندا! اس بے بسی میں ع میں تہی دست ہوں کیا پیش کروں تیرے حضور میرے پاس تو بس میری عزت ہے، میری جان ہے، میں اسی کو تیری راہ میں قربان کرتا ہوں ۔ فجر کی نماز ہوچکی ہے، آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ صدقہ کرنے والا کھڑا ہوجائے، علیّہ کھڑ ے ہوگئے ہیں ، اور کانپ رہے ہیں ، آقا صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں :