بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
کہ حکمت وافادیت کی جو بات یا چیز جہاں سے بھی ملے حاصل کرلینا چاہئے، اسلام اس باب میں کوئی تنگ نظری نہیں رکھتا۔محاصرہ اورمقابلہ بہرحال خندق کی دوسری طرف اہل کفر ہیں ، جو خندق کے پار سے مدینہ منورہ کا محاصرہ کئے ہوئے ہیں ، اہل ایمان اپنی ذمہ داریوں پر مامور ہیں ، ایک گروہ دشمنوں کے بالمقابل ڈٹا ہوا ہے، دوسرا گروہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت پر مامور ہے، تیسرا گروہ مدینہ میں موجود یہودیوں اور منافقین کی نقل وحرکت پر نگاہ رکھے ہوئے ہے، دشمن بار بار خندق پار کرنے کی کوشش کرتا تھا، جہاں خندق کی چوڑائی نسبۃ کم تھی کچھ سورماؤں نے وہ حصہ عبور کیا، مگر اہل ایمان نے ان کو آگے نہیں بڑھنے دیا، ایسے دو دشمنوں کو حضرت علی نے کیفر کردار تک پہنچادیا، دونوں طرف سے تیروں کا تبادلہ ہوتا رہا۔ (شرح الزرقانی:۲/۱۱۴، ابن کثیر:۳/۲۰۲) ایک دن اسی مشغولیت میں عصر کی نماز قضا ہوئی، اور ایک دن تو ایسا سخت گذرا کہ ظہر وعصر ومغرب تینوں نمازیں قضا ہوئیں ، اور عشاء بہت تاخیر سے ادا ہوسکی، اس وقت تک صلاۃ الخوف کا حکم نہیں آیاتھا، اس لئے جنگی ضرورت کی وجہ سے نمازیں مؤخر کرنی پڑیں ۔ (مختصر السیرۃ:۲۸۷)بنو قریظہ کی عہد شکنی محاصرہ طویل تر ہوگیا، اسی نازک مرحلے میں بنوقریظہ نے بھی عہد شکنی کردی، دشمنوں سے جاملے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے نمائندوں کے ذریعہ ان کو اس سے روکا، مگر وہ بولے کہ: لاَ عَقْدَ بَیْنَنَا وَبَیْنَ مُحَمَّدٍ وَلاَ عَہْدَ۔ ہمارے اور محمد کے درمیان کوئی عہد وپیمان نہیں ہے۔ (سیرت ابن ہشام:۲/۱۴۰، شرح الزرقانی:۲/۱۱۱،سیرت سرور عالم:۳/۲۲۴)