بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
کی زیبائی،سراپا پرکشش و دلربا،قد قامت انتہائی حسین و متوازن،رفقاء ایسے کہ سراپا تمنائے دید،پروانوں کی طرح حصار میں لئے ہوئے،گفتگو کریں تو کان لگالیں ،حکم کریں تو دوڑ پڑیں ،مخدوم و مطاع،محترم و مرجع خلائق، نہ ترش رو اور نہ فضول گو۔ یہ اوصاف وشمائل سن کر ابومعبد بول اٹھا: بخدا یہ وہی ہستی ہے جس کے پیچھے پورا قریش پڑا ہوا ہے، میں نے طے کرلیا ہے کہ موقع ملتے ہی ان کی خدمت میں ضرور حاضر ہوں گا۔ (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر: ۲۱۳-۲۱۵)حضرت بریدہؓ سے ملاقات یہ قافلۂ حق آگے بڑھا تو راستے میں ایک مقام پر قبیلۂ بنی اسلم کے ۷۰؍شہ سواروں سے ملاقات ہوئی، جن کی قیادت بریدہ بن حصیب اسلمی کررہے تھے، یہ قافلہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو گرفتار کرنے کے لئے تلاش میں تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بریدہ سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ جواب ملا: بریدہ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تفاؤلاً فرمایا: ابوبکر! اب ہمارا معاملہ ٹھنڈا پڑا اور نتیجہ خیز رہا، پھر پوچھا کہ کس قبیلہ سے ہو؟ جواب ملا: بنواسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اب ہمیں سلامتی ہے، پھر پوچھا کہ اسلم کی کس شاخ سے ہو؟ جواب ملا کہ بنوسہم سے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تیرے بخت نے یاوری کی، تجھے اسلام سے حصہ ملا، بریدہ بولے: آپ کون؟ فرمایا کہ محمد بن عبداللہ، اللہ کا رسول، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس طرزِ کلام نے اور نظر کیمیا اثر نے بریدہ کے دل کی دنیا بدل دی، فوراً پورے قافلے کے ساتھ حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت میں چل پڑے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا عمامہ اپنے دست مبارک سے ایک نیزے پر بلند کرکے انہیں عطا فرمادیا، یہ عمامہ ہجرتِ مدینہ کی ایمانی تحریک کا پرچم تھا، بریدہ اسے ہاتھوں میں اٹھائے چلتے رہے۔ (رحمۃ للعالمین:۱/۱۰۱)