بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
یہیں سے حوض دیکھ رہا ہوں ، مجھے روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دے دی گئی ہیں ، مجھے تم پر شرک کا نہیں دنیا کی ریس میں لگ کر اپنے کو تباہ کرڈالنے کا خدشہ ہورہا ہے۔ (بخاری:المغازی:باب غزوۃ احد)لشکر اسامہ کی روانگی صفر کے اواخر میں (یا ایک قول کے مطابق ربیع الاول کے آغاز میں ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رومیوں سے جہاد کے لئے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر روانہ فرمایا، حضرت اسامہ اس وقت صرف ۱۸؍برس کے تھے، منافقین نے حضرت اسامہ کی کم عمری پر اعتراض کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر سخت ناراضگی ظاہر فرمائی اور فرمایا : تم نے اس سے پہلے موتہ کے معرکہ میں اسامہ کے باپ زید کی امارت پر بھی اعتراض کیا تھا، وہ بھی امارت کے حق دار تھے، اور اسامہ بھی امارت کے حق دار ہیں ، میں اسامہ سے بھی محبت کرتا ہوں اور مجھے ان کے باپ سے بھی محبت تھی۔ (بخاری:المغازی: باب بعث النبی اسامۃ بن زید الخ) اس طرح یہ سبق دیا گیا ہے کہ اسلام میں خاندانی وجاہت کی نہیں ، صلاح اور صلاحیت کی اہمیت ہے۔شدت مرض اور حضرت عائشہؓ کے مکان میں مستقل قیام ۲۹؍صفر ۱۱؍ہجری کی تاریخ ہے، آقا صلی اللہ علیہ و سلم ایک صحابی کے دفن سے جنت البقیع سے واپس ہورہے ہیں ، واپسی پر سر میں درد شروع ہوا ہے، یہ مرض الوفات کا آغاز ہے۔ (الوفا: لابن الجوزی:۷۸۲) تکلیف لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جارہی ہے، وفات سے سات دن پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرہ میں منتقل ہوئے ہیں ، ازواجِ مطہرات کے سامنے