بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
ساقیٔ حوض کوثرا ور قیامت میں اللہ کی حمد کے پرچم کو اٹھانے والے نبی)کے سوا کوئی نہیں ٹھہرے گا، میسرہ نے تعجب سے سنا، اور سب باتیں یاد کرلیں ، اسی سفر میں تجارت میں کسی شخص سے قیمت کے معاملہ پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اختلاف ہوا، اس نے کہا کہ لات وعزیٰ کی قسم کھائیے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میں نے تو کبھی اس کی قسم نہیں کھائی، واقعہ بھی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی کوئی مشرکانہ بات اور حرکت نہیں کی، اس تاجر نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات مان لی اور میسرہ سے کہا : اس اللہ کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ وہی ہیں جن کا ذکر ہماری کتابوں میں ہے۔ اسی سفر میں میسرہ نے دیکھا کہ چاہے کیسی ہی دھوپ ہو، آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر سایہ چھایا رہتا ہے ، یہ سارے واقعات واپسی پر میسرہ نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو بتائے، اور وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بے حد متاثر اور گرویدہ ہوگئیں ۔(طبقات ابن سعد:۱/۱۸۳)حضرت خدیجہ سے نکاح اور اولاد مکہ کے بڑے بڑے سردار ان سے نکاح کے آرزومند تھے، مگر وہ راضی نہ تھیں ، ان کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے نکاح کا خیال آیا، گفتگو آگے بڑھی، سفر سے واپسی کے دو ماہ بعد ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نکاح حضرت خدیجہ سے بیس اونٹ مہر پر کردیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر ۲۵؍سال اورحضرت خدیجہ کی عمر ۴۰؍سال تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت خدیجہ کے ساتھ اپنی زندگی کے پچیس سال گذاردئے، ان کی حیات میں کسی اور سے شادی نہیں کی، حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے علاوہ آ پ اکی تمام اولاد انہیں سے ہوئی، سب سے پہلے حضرت قاسم پیدا ہوئے، انہیں کے نام پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی کنیت ’’ابوالقاسم‘‘ پڑی، پھر حضرت زینب، پھرحضرت رقیہ، پھرحضرت ام کلثوم،حضرت فاطمہ، پھرحضرت عبد اللہ (جن کا لقب طیب یا طاہر تھا) دونوں لڑکے بچپن میں انتقال کرگئے تھے، طعنہ دیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ابتر(بے نام