بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
تقدس وشوق پر، انہوں نے تمام خطرات اور وسوسے پس پشت ڈال دئے ہیں ، دنیا اور معاش کی ہر فکر سے دامن جھاڑ لیا ہے، انہوں نے اپنے دلوں سے کھجور کے تیار باغات، ان کے پھل توڑنے کے انتظامات، ان کی دیکھ ریکھ ہر فکر اللہ ورسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم پر قربان کردی ہے، اور روایات کے مطابق ۳۰؍ہزار سے زائد صحابہ نے اپنے نام درج کرالئے ہیں ۔ (شرح الزرقانی:۳/۶۳)مالی تعاون کی ترغیب معاشی بحران کے ان حالات میں ۳۰؍ہزار مجاہدین کے رسد اور ضروریات کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے ہے، آقا صلی اللہ علیہ و سلم اپنے مؤثر خطاب میں مسلمانوں سے تعاون اور چندہ کی پرزور اپیل کررہے ہیں ،فقر وفاقہ کے حالات کی وجہ سے اس غزوہ کو ’’غزوۃ العسر‘‘ اور اس لشکر کو ’’جیش العسرۃ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔(مغازی الرسول: واقدی:۲/۳۴۵) آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ: مَنْ جَہَّزَ جَیْشَ الْعُسْرَۃِ فَلَہُ الْجَنَّۃُ۔ کون خوش نصیب ہے جو عالم تنگ دستی میں شوقِ جہاد رکھنے والے اس لشکر کے لئے ضروری اسباب فراہم کرنے کی سعادت حاصل کرے اور پھر اسے جنت عطا ہوجائے۔ (بخاری: الوصایا:باب اذاوقف الخ)صحابہ کا جذبۂ انفاق یہ اعلان سن کر راہِ خیر میں مسابقت کا جذبہ صحابہ میں ابھر آیا ہے،حضرت صدیق اکبرؓ اپنا کل اثاثہ بارگاہِ نبوی میں لے آئے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دریافت کرنے پر عرض کیا ہے کہ میرے لئے اللہ ورسول کافی ہیں ؎ پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس