بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
قافلہ سوگیا، فجر میں جگانے کی ذمہ داری حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے لی، مگر ان کی بھی آنکھ لگ گئی، سورج نکل آیا، دھوپ پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اٹھے، نماز قضاء ہوگئی، پھر اجتماعی طور پر اذان واقامت کے بعد نماز فجر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امامت میں قضا کی گئی، یہ رات ’’لیلۃ التعریس‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ (زاد المعاد:۲/۱۴۷الخ)عمرۃ القضاء ذی قعدہ ۷؍ہجری کا ایک اہم واقعہ ’’عمرۃ القضاء‘‘ ہے، ۶؍ہجری میں حدیبیہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کو عمرہ سے روک دیا گیا تھا اور معاہدے میں آئندہ سال قضا کی بات آئی تھی، عمرہ کی قضا کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ذی قعدہ ۷؍ہجری میں تقریباً دوہزار صحابہ کے ساتھ عمرہ کے سفر پر تشریف لے گئے، قریش نے شہر خالی کردیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمرہ فرمایا، قریش دور سے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے معاہدے کے مطابق ۳؍دن قیام فرمایا، چوتھے دن مشرکوں نے کہلوایا کہ مدت پوری ہوچکی ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے واپسی فرمائی۔ (بخاری: المغازی: باب عمرۃ القضاء) یہ سفر ایک خاموش دعوتی مشن بھی تھا، کفار نے خاموشی سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کے اخلاق، سیرت، کردار واطوار، ان کے باہمی وحدت واجتماعیت، مساوات واخوت اور زہد وتقویٰ کے اوصاف اور اس دین برحق کے فطری احکام کا مشاہدہ ومعائنہ بغور کیا، جس نے دلوں اور دماغوں میں اسلام کی حقانیت کی تخم ریزی کی، دوسری طرف مسلمانوں کی قوت وشوکت نے ان کے دلوں میں رعب وہیبت بھی پیدا کردی، اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم چاہتے تو مکہ پر قبضہ کر لیتے مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عہد کی پاس داری فرمائی۔حضرت میمونہؓ سے عقد اسی سفر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا سے عقد فرمایا، یہ