بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
میں جس مقام پر وفود سے ملاقات کرتے تھے، وہ مقام ’’اُسْطُوَانَۃُ الْوُفُوْدِ‘‘ کے نام سے اب بھی موجود ہے۔(ایضاً، زادالمعاد:۳/۸۸، مدارج النبوۃ:۵۲۷)وفد صداء روایات میں یمن کے مقام’’ صُدَائْ‘‘ کے وفد کا بھی ذکر آیا ہے، اس وفد کے سربراہ ’’زیاد بن حارث صدائی‘‘ تھے، ایک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے اذان بھی دلوائی، انہوں نے عرض کیا کہ: یا رسول صلی اللہ علیہ و سلم للہ! ہمارے یہاں ایک کنواں ہے جو گرمیوں میں سوکھ جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم دعا فرمادیں کہ وہ خشک نہ ہو، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سات کنکریاں منگوائیں ، اپنے دست اقدس میں ان کو ملا، اور حکم فرمایا کہ ایک ایک کرکے یہ کنکری کنوئیں میں ڈال دینا، حضرت زیاد کا بیان ہے کہ ہم نے ایسا ہی کیا، اللہ نے ایسی برکت عطا فرمائی کہ آج تک پھر وہ کنواں خشک نہ ہوا اور نہ ہی اس کی گہرائی معلوم ہوسکی۔ (زاد المعاد:۳/۱۵۹)وفد نجران نجران کے نصاریٰ کا وفد بھی ۹؍ہجری میں آیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں دعوت اسلام پیش کی، مگر انہوں نے عناد وتکبر کا رویہ اپنایا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تعلق سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ان سے مکالمہ ہوا، اس موقع پر سورۂ آل عمران کی آیات ۵۹تا۶۱نازل ہوئیں ، جن میں مباہلہ(بحث کے دونوں فریقوں کا اللہ سے یہ دعا کرنا کہ ہم میں سے جو جھوٹا یا باطل پر ہووہ ہلاک ہوجائے) کا ذکر ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم مباہلہ کے لئے تیار ہوگئے، مگر یہ نصاریٰ گھبرا گئے، بالآخر صلح پر آمادہ ہوئے، اور جزیہ دینے کا عہد کیا، پھر ان کے مطالبے پر کہ جزیہ وصول کرنے کے لئے کسی امانت دار شخص کو بھیجا جائے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کا انتخاب فرمایا اور یہ اعلان بھی کیا کہ: