بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
روایات بتاتی ہیں کہ عجیب وغریب جذبۂ سخاوت تھا، انفاق فی سبیل اللہ کا انتہائی مثالی نمونہ صحابہ پیش کررہے تھے، جس کے پاس جو تھا بخوشی نذر کررہا تھا، مسجد نبوی کے صحن میں ڈھیر لگ گیا تھا۔غرباء کا کردار دربار رسالت کے غرباء کا کردار بھی اس موقع پر آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے، حضرت ابوعقیل انصاریؓ غریب صحابی ہیں ، ان کے پاس تعاون پیش کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے، مگر دل مانتا نہیں ، رات بھر ایک یہودی کے کھیت میں پانی پہنچانے کی مزدوری کرتے رہے، صبح کو ۴؍سیر کھجور اجرت ملی، دوسیر گھر والوں کو دے کر باقی دو سیر کی پوٹلی آقا صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لائے ہیں ، صحن مسجد میں عطیات کا ڈھیر دیکھ کر ان کے قدم رک گئے ہیں ،کہاں یہ گراں قدر عطیات اور کہاں یہ بے حقیقت پوٹلی؟ آقا صلی اللہ علیہ و سلم بھانپ جاتے ہیں ، ابوعقیل کو آگے بلاتے ہیں ، ابوعقیل پوری داستان عرض کرتے ہیں ، آقا صلی اللہ علیہ و سلم ابوعقیل کی پیٹھ تھپتھپاتے ہیں ، ان کے جذبۂ ایثار کی قدر کرتے ہیں ، حکم فرماتے ہیں کہ ابوعقیل کی کھجوریں تمام عطیات کے ڈھیر پر بکھیر دو۔ (سیرت احمد مجتبی:۳/۳۰۰) اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ پیغام دیا ہے کہ لوگو! اللہ کے دربار میں اصل قیمت مقدار، کمیت اور کوانٹٹی کی نہیں ؛ بلکہ معیار، کیفیت، کوالٹی، جذبۂ دل، نیت باطن اور خلوصِ قلب کی ہے، اللہ کی رضا کے لئے خرچ کیا جانے والا ایک معمولی سامان بھی سیم وزر کے اس گنجینے پر بھاری ہے جس کی پشت پر ریا اور نمود کے جذبے کارفرما ہوں ۔منافقین کاخبث اور قرآن کی صراحت مارِ آستین منافقین اس موقع پر اپنے خبث باطن کا اظہار بھی خوب خوب کررہے تھے، جو مسلمان زیادہ مال لارہا تھا اسے ریاکار ہونے کا طعنہ دیتے اور جو مسلمان کم مال لاتا اسے یہ