بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
ان کی والدہ ام الخیر بھی اسلام لے آتی ہیں ۔ (دیکھئے: بخاری : التفسیر:۴۸۱۵، مسند احمد:۲/۲۰۴، صدیق اکبر: از مولانا سعید احمد اکبرآبادی:۳۳، سیرت خلیفۃ الرسول سیدنا ابوبکر صدیقؓ : طالب ہاشمی: ۵۱)حضرت عمر فاروقؓ: ابدی ہدایت کی چھاؤں میں اسلام کا قافلہ ۳۹؍نفری پر مشتمل ہے، دوشنبہ کا دن ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ہیں : اَللّٰہُمَّ أَعِزَّ الإِسْلاَمَ بِأَحَبِّ الرَّجُلَیْنِ اِلَیْکَ: بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ اَوْ بِاَبِیْ جَہْلِ بْنِ ہِشَامٍ۔(ترمذی: المناقب: مناقب ابی حفص عمر) اے اللہ :عمر بن خطاب اورعمرو بن ہشام ابوجہل دونوں میں سے جو آپ کے نزدیک زیادہ محبوب ہو ،اس کے قبول اسلام کے ذریعہ اسلام کو باعزت فرمادیجئے۔ منگل آیا، تو پھر یہی دعا فرمائی، بدھ کو پھر یہی دعا، حضرت عمرؓ کے حق میں دعا کی قبولیت کی بشارت مل گئی۔ حضرت عمرؓ بدترین دشمن اسلام ہیں ، ننگی تلوار لے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کرنے کے ارادے سے نکلے ہیں ،راستے میں انہیں اپنی بہن اور بہنوئی کے قبول اسلام کی اطلاع ملتی ہے ، بہن کے گھر آتے ہیں ، باہر سے کان لگاتے ہیں تو اندر سے قرآن کی آواز آتی ہے ،طیش کے عالم میں دروازہ کھلواتے ہیں ، اس وقت حضرت خبابؓ قرآن سکھارہے تھے،وہ چھپ جاتے ہیں ، حضرت عمرؓ اپنے بہنوئی اور بہن کو بے تحاشہ مارنے لگتے ہیں ،یہاں تک کہ بہن کا جسم خون آلود ہوجاتا ہے ،بہن بولتی ہیں : عمر ! تم چاہے جتنا ستاؤ ، ہم کسی قیمت پر اس دین حق سے منحرف نہیں ہوسکتے ، شاعر نے اس جواب کو یوں نظم کیا ہے ؎ بہن بولی عمر تو آج مجھ کو مار بھی ڈالے شکنجوں میں کسے یا بوٹیاں کتوں سے نچوالے