بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
آپ صلی اللہ علیہ و سلم قبر پرتشریف لے گئے، قبر درست کی، اور بے اختیار رونے لگے، سبھی لوگ رونے لگے۔( الترغیب و الترہیب للمنذری:۴/۳۵۸، صحیح مسلم :الجنائز: باب زیارۃ القبور) فرمایا: أَدْرَکَتْنِيْ رَحْمَتُہَا فَبَکَیْتُ۔ مجھے ان کی مامتا یاد آگئی تھی، اس لئے میں رودیا۔دادا کی آغوش محبت والدہ کی وفات کے بعد دادا جناب عبدالمطلب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی آغوشِ محبت میں لے لیتے ہیں ، اپنی تمام اولاد سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو چاہتے ہیں ، کسی لمحہ اپنے سے جدا کرنے کو تیار نہیں ہوتے، اپنی قالین پر اپنے بغل میں بٹھاتے ہیں ، کسی کو اشکال ہوتا ہے تو اسے ڈانٹ دیتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ: ’’میرے بیٹے کو چھوڑو، خدا کی قسم اس کی شان ہی کچھ اور ہے، مجھے امید ہے کہ یہ ایسے بلند مرتبے پر پہنچے گا، جس تک کوئی نہیں پہنچ سکا۔‘‘( سیرت ابن ہشام:۱/۱۶۸) روایات میں آتا ہے کہ قیافہ شناسی میں معروف قبیلہ بنو مدلج کے کچھ لوگوں نے عبدالمطلب سے کہا تھا کہ: ’’اس بچے کی خاص حفاظت کرنا؛ اس لئے کہ ہم نے کوئی نشانِ قدم ایسا نہیں دیکھا جو مقام ابراہیم پر حضرت ابراہیم کے نقش قدم سے اس قدر مشابہت رکھتا ہو جیسی اس بچے کا نشانِ قدم رکھتاہے۔‘‘( الوفاء لابن الجوزی/۱۵۴)دنیا کے سہاروں کے بجائے اللہ کا سہارا لیکن دادا کی یہ شفقت بھی زیادہ دن نہ رہ سکی، ۸؍سال کی عمر تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دادا کا