بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
دل نے چاہا کہ دم نکلنے سے پہلے اپنے لبوں کو جسم اطہر سے مس کرلوں ، برکتیں مل جائیں ، سعادتیں حاصل ہوجائیں ، اسی لئے بار بار صف سے آگے کو ہوجاتا تھا، اپنے پروانے کی یہ بات سن کر شمع ہدایت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی۔ (الاصابۃ :۲/۹۵، السیرۃ النبویۃ: لابن ہشام :۲/۲۳۸)انفرادی مقابلے حضرات! اب میدانِ بدر میں معرکۂ کارزار گرم ہے، عرب کے دستور کے مطابق پہلے انفرادی مقابلے ہوئے ہیں ، کفار نے آواز لگائی: مَنْ یُبَارِزُ؟ کون ہے مقابلہ کرنے والا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اشارے پر حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضرت عبیدہ بن الحارث آگے آرہے ہیں ، یہ تینوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریبی رشتہ دار ہیں ، اس عمل میں بھی ایک عظیم سبق ہے کہ سب سے زیادہ خطرناک مرحلے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے آپ کو اور اپنے سب سے قریبی رشتہ داروں کو سب سے آگے رکھا ہے۔ دوسری طرف عتبہ، شیبہ اور ولید آگے آئے، مقابلہ ہوا، حضرت حمزہ نے شیبہ کو، حضرت علی نے ولید کو قتل کردیا، حضرت عبیدہ عتبہ سے مقابلہ کررہے تھے، دونوں زخمی ہوئے، بالآخر عتبہ قتل ہوا، حضرت عبیدہ کا زخم کاری تھا، اور پھر اس زخم سے وہ جاں بر نہ ہوسکے اور جام شہادت نوش کیا۔(سیرت ابن ہشام:۲/۶۲۴ الخ) اس تعلق سے قرآن میں فرمایا گیاہے : ہٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّہِمْ۔ (الحج: ۱۹) یہ مؤمن وکافر دو فریق ہیں ، جنہوں نے اپنے پروردگار کے معاملے