بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَائِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضَاہَا، فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۔ (البقرۃ: ۱۴۴) اے نبی: ہم آپ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ، چناں چہ ہم آپ کا رخ ضرور اسی قبلے کی طرف پھیردیں گے جو آپ کو پسند ہے، لیجئے اب اپنا رخ مسجد حرام کی سمت کرلیجئے۔ یہ حکم ظہر کی نماز میں مسجد بنی سلمہ میں دورانِ نماز آیا، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم وہاں امامت فرمارہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے درمیان میں ہی قبلہ بدلا، اسی وجہ سے اس مسجد کا نام ’’مسجد القبلتین‘‘ ہوگیا، یہود نے اس حکم پر بہت کچھ طعنہ زنی؛ بکواس اورجسارتیں کیں ، قرآن نے ان کے جواب میں واضح کردیا کہ اسلام کا پیغام اللہ کی عبادت اور اس کے حکم کی تعمیل ہے، اسلام کسی خاص سمت کی پرستش کی دعوت نہیں دیتا، سمتیں سب اللہ کی ملکیت ہیں ، وہ جب جدھر عبادت کا حکم دے گا اس کی تعمیل ضروری ہوگی، معبود اللہ کی ذات ہے، کوئی سمت، کوئی مکان، کوئی عبادت گاہ معبود نہیں ہے، جب تک اس نے بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا، اس کی تعمیل ضروری رہی، اب اس نے بیت اللہ کو قبلہ بنانے کا حکم دیا ہے، سب پر اس حکم کی اتباع ضروری ہے۔(انعام الباری:۱/ باب الصلوۃ من الایمان)قتل رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سازش کی ناکامی مشرکین مکہ بدر کی شکست سے پیچ وتاب کھائے ہوئے ہیں ، مکہ کے دو مشرک سردار صفوان بن امیہ اور عمیر بن وہب حطیم میں محو گفتگو ہیں ، صفوان بدر میں مقتول سرداروں کی موت پر آہ سرد کھینچتا ہے کہ ان کے بعد تو زندگی میں مزا ہی نہ رہا، عمیر بولا: میرا ایک بیٹا مدینہ میں قید ہے، میرے ذمہ قرض نہ ہوتا، اہل وعیال نہ ہوتے تو میں مدینہ منورہ جاکر محمد کو ختم کرڈالتا، صفوان یہ سن کر کہتا ہے: تمہارا قرض میرے ذمے رہا، تمہارے اہل وعیال میری