بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
یہاں یہ بھی مقام غور ہے کہ اللہ نے یہ نہیں کہاکہ میرا بندہ خود گیا تھا ،اللہ کہہ رہا ہے کہ میں اپنے بندے کو لے گیا تھا،{اَسْرَیَ بِعَبْدِہِ} میں قادر مطلق ہوں ، میں وقت کا بھی خالق ہوں ، زمان کا بھی، مکان کا بھی، میں جب چاہوں وقت کی رفتار روک سکتا ہوں ، میں جب چاہوں زمانے کا پہیہ جام کرسکتا ہوں ، اگر تم میری قدرت پر یقین رکھتے ہو تو تم کو اس واقعہ کی صداقت پر شک نہیں ہوسکتا، شک اسے ہوتا ہے جو جانے والے کو دیکھ رہا ہو، اسے کیسے شک ہوسکتا ہے جو لے جانے والے رب کو اور اس کی قدرتِ مطلقہ کو جانتا اور مانتا ہو۔ (خطبات بنگلور: مولانا مجاہد الاسلام قاسمیؒ: ۷۶)یثرب کا دوسرا وفد آغوش توحید میں نبوت کا بارہواں سال ختم ہونے کو ہے، حج کا موسم ہے، مدینہ منورہ سے ۱۲؍آدمیوں کا وفد آیا ہے، اس میں ۵؍وہ بھی ہیں جو گذشتہ سال مسلمان ہوچکے تھے، ان میں دس خزرج کے اور دو اَوس کے ہیں ، دعوتِ اسلامی نے اوس وخزرج کی باہمی خلیجیں گھٹانی اور فاصلے مٹانے شروع کردئے ہیں ، قبائلی نخوت کم ہوتی اور ایمانی اخوت بڑھتی جارہی ہے، یہ ۱۲؍خوش نصیب منیٰ میں عقبہ (گھاٹی) کے پاس آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے مل رہے ہیں ، تجدید وفا کررہے ہیں ، بیعت ہورہے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمارہے ہیں : بَایِعُوْنِی عَلَی اَنْ لاَ تُشْرِکُوا بِاللّٰہِ شَیْئاً، وَلاَ تَسْرِقُوا، وَلاَ تَزْنُوا، وَلاَ تَقْتُلُوا اَوْلَادَکُمْ، وَلاَ تَأْتُوا بِبُہْتَانٍ تَفْتَرُوْنَہُ بَیْنَ اَیْدِیْکُمْ وَاَرْجُلِکُمْ، وَلاَ تَقْذِفُوْا مُحْصَنَۃً، وَلا تَعْصُوا فِيْ مَعْرُوْفٍ۔ تم مجھ سے عہد کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرو گے، چوری نہیں کرو گے، زنا نہیں کروگے،اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے،اپنی طرف