بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
نذرانہ پیش کردیا، ان میں آخری صحابی حضرت عمارہ بن یزید تھے، زخموں سے چور حضور اکی آغوش میں انہوں نے جان دے دی۔(دیکھئے: سیرت المصطفیٰ :۲/۲۰۷، زرقانی:۲/۳۵، البدایۃ والنہایۃ:۴/۲۶)آقا صلی اللہ علیہ و سلم زخمی ہوئے عتبہ بن ابی وقاص نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پتھر مارا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نچلا داہنا دانت ٹوٹ گیا ہے، ہونٹ زخمی ہوگیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرے کو زخمی کردیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشانی خون آلود ہوگئی ہے، خود کی کڑیاں چہرے کے اندر گھس گئی ہیں ، حضرت علی اور حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہما نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زخم دھوئے، خون بند نہیں ہوا تو چٹائی جلاکر اس کی راکھ زخم پر رکھی گئی، تب بند ہوا۔(بخاری:المغازی: باب ما اصاب النبی من الجراح، مسلم: الجہاد: باب غزوۃ احد) روایات میں آتا ہے کہ اس عالم میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے زخموں سے خون صاف کرتے جاتے تھے اور فرماتے تھے کہ وہ قوم کیسے کام یاب ہوسکتی ہے جس نے اپنے نبی کے چہرے کو زخمی کردیا ہو؟ اس پر اللہ نے فرمایا: لَیْسَ لَکَ مِنَ الاَمْرِ شَیْئٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْہِمْ اَوْ یُعَذِّبَہُمْ فَاِنَّہُمْ ظٰلِمُوْنَ۔ (اٰل عمران: ۱۲۸) آپ کو کوئی اختیار نہیں ، اللہ چاہے تو انہیں توبہ کی توفیق دے اور چاہے تو عذاب دے کہ وہ ظالم ہیں ۔ (بخاری: المغازی: باب لیس لک من الامر الخ) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دشمنوں کے حق میں دعائے ہدایت بھی فرمائی: اَللّٰہُمَّ اہْدِ قَوْمِي فَإِنَّہُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ۔ خدایا! میری قوم کو ہدایت دے، یہ نہیں جانتے۔ (الشفاء:قاضی عیاض:۱/۸۱)