بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
چشم کا منتظررہتا ہے، وہ ان کے وضو کا پانی اور لعابِ دہن تک زمین پر گرنے نہیں دیتے، ان کے حکم کی تعمیل میں دوڑ پڑتے ہیں ، ان کی مجلس میں اس درجہ مؤدب اور پرسکون اور سرجھکائے رہتے ہیں جیسے سروں پر پرندے ہوں جو حرکت سے اڑجائیں گے، اس لئے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیش کش قبول کرلینی چاہئے۔ (شرح الزرقانی:۲/۱۹۲الخ، بخاری: الشروط)بیعت رضوان قریش مکہ سے مذاکرات کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اپنا سفیر بناکر بھیجا، وہ مکہ پہنچے تو قریش نے انہیں طواف کی اجازت دے دی، مگر ان کے دل نے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے بغیر طواف کرنے کو گوارا نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ جب تک آقا صلی اللہ علیہ و سلم طواف نہیں کرتے، میں بھی طواف نہیں کروں گا، یہ سن کر قریش کو غصہ آیا، انہوں نے حضرت عثمان غنی کو روک لیا۔ (سیرت ابن ہشام:۳/۳۲۹) یہ خبر اس افواہ کی شکل میں مسلمانوں تک پہنچی کہ حضرت عثمان غنی کو مکہ میں قتل کردیا گیا ہے، مسلمان مشتعل ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک کیکر کے درخت کے نیچے تمام مسلمانوں کو جمع فرمایا اور یہ عہد لیا کہ لڑنے کا موقع آیا تو پیٹھ نہیں پھیریں گے، اور جب تک عثمان کے خون کا بدلہ نہیں لیں گے یہاں سے نہیں ہٹیں گے، یہ ’’بیعت رضوان‘‘ کہلاتی ہے۔ (سیرت ابن اسحاق:۲/۴۶۰) جماعت صحابہ میں ان شرکاء بیعت صحابہ کو امتیازی مقام عطا ہوا ہے، اور قرآن میں اللہ نے ان سے اپنی رضا کا اعلان کیا ہے: لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا، وَمَغَانِمَ کَثِیْرَۃً یَأْخُذُوْنَہَا وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔ (الفتح: ۱۸-۱۹)