بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
دلیری کے ناقابل بیان جوہر دکھا رہے ہیں ، رسول صلی اللہ علیہ و سلم للہ صلی اللہ علیہ و سلم جبرئیل امین کے اشارے پر مٹھی بھر مٹی اور کنکر زمین سے اٹھاتے ہیں ، اور اسے مشرکین کی طرف پھینکتے ہوئے فرماتے ہیں : شَاہَتِ الْوُجُوْہُ، اَللّٰہُمَّ اَرْعِبْ قُلُوْبَہُمْ وَزَلْزِلْ أَقْدَامَہُمْ۔ ان کے چہرے رسوا اور ذلیل ہوئے، خدایا ان کے دلوں پر رعب ڈال دیجئے اور ان کے قدم اکھاڑ دیجئے۔ اللہ نے یہ مٹی اور کنکری ہر مشرک کی آنکھ، ناک اور منہ تک پہنچادی، اور ان میں افراتفری پھیل گئی، قرآن کہتا ہے: وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمَیٰ۔ (الانفال: ۱۷) اے نبی! جب آپ نے ان پر مٹی پھینکی تھی تو وہ آپ نے نہیں ؛ بلکہ اللہ نے پھینکی تھی۔(دیکھئے: سیرت ابن کثیر:۴:۲۵)امت کے فرعون کا انجام بد اللہ نے امت محمدیہ کے فرعون ’’ابوجہل‘‘ کو ذلت ناک موت سے دوچار کیا، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ: میں جنگ بدر کے دن میدان میں تھا، میرے دائیں بائیں دو نوعمر جوان ’’معاذ ومعوذ‘‘ تھے، مجھ سے راز دارانہ الگ الگ کہنے لگے: چچا جان! ابوجہل کون ہے؟ بتائیے، میں نے کہا: کیا کام ہے؟ بولے: سنا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو برا کہتا ہے، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر مجھے وہ نظر آگیا تو اسے مارکر ہی چھوڑوں گا، تھوڑی دیر بعد مجھے ابوجہل نظر آیا، میں نے دونوں کو اشارے سے بتادیا، دونوں اپنی تلواریں لئے