بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
متصل کپڑے کی طرح مجھ سے قریب ہیں ، اور دیگر لوگ اوپر کے کپڑے کی طرح ہیں ،خدایا: انصارپر رحم فرمائیے، انصار کی اولادپر رحمت نازل فرمایئے اور انصار کی اولاد کی اولاد پر ابر رحمت برسادیجئے۔ اس خطاب کا منظر دیکھنے والے عینی شاہدین کا بیان ہے کہ خطاب اس قدر دل گداز تھا کہ کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اشک بار نہ ہوگئی ہو، کوئی داڑھی ایسی نہ تھی جس نے آنسوؤں سے وضو نہ کیا ہو، کوئی دامن ایسا نہ تھا جو اشک ندامت سے تر نہ ہوا ہو، ایک گریۂ پیہم کی کیفیت طاری تھی، ہچکیاں بندھ گئی تھیں ، ہر زبان پر یہی پکار تھی کہ: ہمیں کچھ نہیں چاہئے، ہمیں صرف اللہ کا رسول مطلوب ہے، ہم اس تقسیم پر دل وجان سے راضی ہیں ۔ (پورے واقعہ کے لئے دیکھئے:مسلم: الزکوۃ: باب عطاء المؤلفۃ قلوبہم، مسند احمد:۳/۷۶ الخ، مختارات من ادب العرب:۱/۲۹ الخ)خطاب نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا روح پرور پیغام حضراتِ گرامی! اس واقعہ سے ایک طرف تو نازک اور حساس موقعوں پر سحر آفریں خطابت کی جادو بیانی اور تاثیر کا اندازہ ہوتا ہے، اور معلوم ہوتا ہے کہ اللہ عزوجل نے تمام کمالاتِ علمی وعملی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خطیبانہ کمال بھی مکمل طور پر عطا فرمایا تھا، خطباتِ نبوی میں یہ خطبہ اپنی بلاغت اور تاثیر کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ دوسری طرف اس سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ دوسروں کی کارکردگی، قربانی اور خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے؛ بلکہ کسی ذہنی تحفظ کے بغیر کھلے دل سے اس کا اقرار واعتراف کیا جانا چاہئے، انصارِ مدینہ کی قربانیوں کا تذکرہ زبانِ نبوت سے انتہائی بلند الفاظ میں ہورہا ہے،یہ اسوۂ نبوی معاشرتی زندگی میں الفتوں کے رشتے مستحکم بنانے، باہمی وحدت و