بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ور اسوۂ صحابہ اختیار کرتے ہوئے مہاجرین وانصار کی طرح متحد ومنظم اور تمام تعصبات،فرقہ بندیوں ، تحفظات اور کدورتوں سے نفور وگریزاں ہونا پڑے گا، اور دوسری طرف نبوی حکمت عملی سامنے رکھتے ہوئے اپنی بساط کے مطابق دشمنوں کی تنظیم اور ان کے اتحاد واشتراک میں دراڑ پیدا کرنے، ان کو کمزور وکھوکھلا کرنے اور ان کے باہمی اختلاف کو ہوا دینے اور نمایاں کرنے کی سمت میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ایسے حالات میں موجودہ مسلم ممالک جو ۵۰؍سے بھی زائد ہیں ، ایک دوسرے کے لئے مشترک دشمن کے مقابلے میں ایک خندق اور فاصل اور روک کا مقام رکھتے ہیں ، غزوۂ احزاب میں خندق کی تدبیر استعمال کی گئی تھی، اس کا سبق یہی ہے کہ تمام مسلم ممالک صرف اپنی اپنی سرحد اور مفاد کو پیش نظر نہ رکھیں ؛ بلکہ پوری امت اور عالم اسلام کے مشترک اور وسیع تر مفاد کو سامنے رکھ کر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے متحدہ ومشترکہ نظام ولائحۂ عمل طے کریں ، ورنہ احادیث کی صراحت کے مطابق ٹکڑیوں میں بٹے رہنے والے ان ممالک کو دشمن بھیڑ یا ایک ایک کرکے لقمہ بناتا چلا جائے گا۔ غزوۂ خندق کے اس مرحلے سے گذرنے کے بعد اہل ایمان کو نبوی پیش گوئی کے ذریعہ یہ یقین ہوگیا کہ اب عرب کی کوئی طاقت ان کو مغلوب نہیں کرسکے گی، اور اسلام کی یہ تحریک اب ہمہ جہت انقلاب لانے کے مرحلے میں داخل ہورہی ہے، اب اس کی پرواز کسی طوفان سے روکی نہ جاسکے گی۔غزوہ بنی قریظہ خندق سے واپسی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غسل کیا، اور آرام کا ارادہ فرمایا، اسی دوران حضرت جبرئیل علیہ السلام آگئے اور بولے: قَدْ وَضَعْتَ السِّلاَحَ، وَاللّٰہِ مَا وَضَعْنَاہُ، فَاخْرُجْ اِلَیْہِمْ۔