بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
حضرت مصعب کے جسم پر چادر ڈالی جاتی ہے، چادر اتنی چھوٹی ہے کہ سر ڈھکا جائے تو پاؤں کھل جاتے ہیں ، پاؤں ڈھکے جائیں تو سر کھل جاتا ہے، بالآخر آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم پرسر ڈھکا جاتا ہے، پاؤں پراذخر گھاس ڈالی جاتی ہے، دو دو اور تین تین شہداء کو ایک ایک ساتھ دفن کیا جاتا ہے،حکم نبوی پر قرآن کے زیادہ اجزا ء یاد کرچکے شہید کو مقدم رکھاجاتا ہے۔ (مشکوۃ:الجنائز:باب دفن المیت) آقا صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں : میں قیامت کے دن ان کے حق میں گواہی دوں گا، یہ قیامت کے روز اس طرح اٹھائے جائیں گے کہ ان کے زخموں سے لہو بہتا ہوگا، رنگ تو خون کا ہوگا؛ لیکن خوشبو مشک جیسی ہوگی۔ (ابن ہشام: ۲/۹۸)قافلہ کی واپسی اور قرآن کی تسلی ۷؍شوال المکرم ۳؍ہجری ہفتہ کے دن مغرب کے وقت یہ قافلہ مدینہ پہنچا ہے، ماحول سوگوار ہے، مگر قرآن تسلی دے رہا ہے، اور سبق بھی دے رہا ہے: إِنْ یَمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُہُ، وَتِلْکَ الأَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ، وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَ یَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَائَ، وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظَّالِمِیْنَ۔( آل عمران/۱۴۰) اگر تمہیں ایک زخم لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی اسی جیسا زخم پہلے لگ چکا ہے ، یہ تو آتے جاتے دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں ، اور مقصد یہ تھا کہ اللہ ایمان والوں کو جانچ لے اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہید قرار دے ، اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ شہداء کے بارے میں فرمایا جارہا ہے: