بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
کَاْنَ أَشَّدَ حَیَائً مِنَ الْعَذْرَائِ فِيْ خِدْرِہَا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کنواری پردہ نشین خاتون سے زیادہ حیا دار تھے۔ ابھی لنگی کھلنے بھی نہ پائی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حالت غیر ہونے لگی، اضطراب طاری ہوگیا، حضرت عباس گھبرا گئے، اور فوراً لنگی باندھ دی۔( بخاری :الحج:باب فضل مکۃ،الادب: الحیاء)پہلا سفر شام بارہ سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے چچا کے ساتھ تجارتی سفر پر ملک شام گئے، بصریٰ پہنچے، قافلے نے بحیرا راہب کے گرجے سے باہر پڑاؤ ڈالا، خلافِ توقع راہب اس دن قافلے والوں سے ملا، اور ان کی میزبانی کی، اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصاف کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پہچان لیا، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہاتھ پکڑکر کہا کہ: ہَذَا سَیِّدُ الْعَالَمِیْنَ، ہَذَا رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، یَبْعَثُہُ اللّٰہُ رَحْمَۃً لِلْعَالَمِیْنَ۔ یہ سید العالمین ہیں ، اللہ انہیں رحمۃ للعالمین بنائے گا۔ ابوطالب نے کہا: ’’تمہیں کیسے معلوم؟‘‘ بحیرا بولا: اِنَّکُمْ حِیْنَ اَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَۃِ، لَمْ یَبْقَ حَجَرٌ وَلَاشَجَرٌ اِلَّا خَرَّ سَاجِداً، وَلَایَسْجُدَانِ اِلَّا لِنَبِیٍّ، وَاِنِّی اَعْرِفُہُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّۃِ۔ جب تم لوگ گھاٹی کے اس طرف آئے تو کوئی درخت یا پتھر ایسا نہیں تھا جو سجدے کے لئے جھک نہ گیا ہو، یہ چیزیں نبی کے علاوہ کسی کو سجدہ نہیں کرتیں ، پھر میں انہیں مہر نبوت سے پہچانتا ہوں ، انہیں واپس کردو، آگے نہ لے جاؤ، کیوں کہ یہودیوں سے خطرہ ہے۔