بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
غسل، تجہیز، تکفین، نماز جنازہ اور تدفین اس کے بعد آقا صلی اللہ علیہ و سلم کی تدفین کا مرحلہ آتا ہے، حضرت صدیق اکبرؓ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا کہ نبی کی جہاں وفات ہوتی ہے وہیں دفن کیا جاتا ہے، اس پر آقا صلی اللہ علیہ و سلم کی تدفین حجرۂ عائشہ میں طے ہوئی۔ (ترمذی:الجنائز: ۱۰۰۱، تحفۃ الالمعی:۳/۴۲۲، شمائل ترمذی: باب ما جاء فی وفاۃ رسول صلی اللہ علیہ و سلم للہ) منگل ۱۳؍ربیع الاول کی صبح ہے، کپڑے اتارے بغیر آقا صلی اللہ علیہ و سلم کو غسل دیا جارہا ہے، (سیرت احمد مجتبی:۳/۴۸۰) حضرت عباس، حضرت علی، حضرت فضل بن عباس، حضرت اسامہ، حضرت اوس رضی اللہ عنہم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کردہ غلام شقرانؓ غسل دے رہے ہیں ۔ (البدایۃ والنہایۃ:۵/۲۶۰) ۳؍سفید یمنی چادروں میں کفن دیا گیا ہے۔ (بخاری:الجنائز: باب الثیاب البیض للکفن) اب تدفین کا مرحلہ ہے، حضرت ابوطلحہؓ نے بغلی قبر کھودی ہے۔(شرح الزرقانی:۸/۲۸۹ الخ) حضرت علیؓ نے فرمایا کہ آقا صلی اللہ علیہ و سلم زندگی میں ہمارے امام تھے، اب بھی وہی امام ہیں ، جماعت نہیں ہوگی، کمرے کی گنجائش کے اعتبار سے دس دس افراد آتے رہیں ، نماز پڑھتے رہیں ، پہلے مرد، پھر بچے، پھر عورتیں ، باری باری نماز پڑھی جاتی رہی۔ (البدایۃ والنہایۃ: ۵/۲۶۵، شرح المواہب:۸/۲۹۱) ابن دحیہ کے بقول ۳۰؍ ہزار افراد نے نماز جنازہ پڑھنے کی سعادت پائی۔ (سیرت احمد مجتبی:۳/۴۸۱) اس عمل میں منگل کا دن ختم ہوگیا، بدھ کی رات بھی ختم ہونے کو ہے، حضرت علی، حضرت عباس، حضرت قثم رضی اللہ عنہم قبر مبارک میں اترے ہیں ۔ (طبقات ابن سعد:۲/۷۶، جوامع السیرۃ:۲۹۱)