بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
واپسی کا سفر شروع ہوگیا، عبد اللہ بن ابی کو پتہ چلا کہ اس کی باتیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پتہ چل گئی ہیں ، وہ آیا اور کہنے لگا کہ زید بن ارقم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم تک غلط خبر پہنچائی ہے، میں نے کچھ نہیں کہا ہے، بہت سے لوگ کہنے لگے کہ زید کم سن ہیں ، ان سے سننے اور سمجھنے میں غلطی ہوگئی ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم واپسی کے سفر میں اونٹ پر سوار ہیں ، خلافِ معمول قافلہ پوری رات اور پورا دن چلتا رہا ہے، دوسرے دن دوپہر میں آرام کی اجازت ملتی ہے، پھر اسی موقع پر سورۃ المنافقون نازل ہوئی، عبد اللہ بن ابی کے خبیثانہ بیان کو اللہ نے ریکارڈ کردیااور پھر فیصلہ فرمادیا: یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَجَعْنَا اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لِیُخْرِجَنَّ الاَعَزُّ مِنْہَا الاَذَلَّ، وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہِ وَ لِلِمُؤْمِنِیْنَ، وَلٰکِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۔(ا لمنافقون: ۸) یہ منافق کہتے ہیں : اگر ہم مدینہ کو لوٹ کر جائیں گے تو جو عزت والا ہے ، وہ وہاں سے ذلت والے کو نکال باہر کرے گا، حالانکہ عزت تو اللہ ہی کو حاصل ہے ، اور اس کے رسول کو، اور ایمان والوں کو، لیکن منافق لوگ نہیں جانتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ نے زید بن ارقم کی موافقت فرمائی ہے، اس طرح حق واضح ہوکررہا، عبد اللہ بن ابی کے بیٹے مخلص مسلمان حضرت عبد اللہ ؓنے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے باپ کے قتل کا ارادہ کیا ہے، اگر ایسا ہے تو مجھے حکم دیجئے کہ میں ان کا سر اتار لاؤں ، کوئی دوسرا یہ کام کرے گا تو کہیں مجھ کو اندھا جوش انتقام گناہ میں مبتلا نہ کردے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ نہیں ، میں تمہارے باپ کے ساتھ نرمی اور درگذر کروں گا۔