بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
یقینا اللہ ان مومنوں سے بڑا خوش ہوا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے، اور ان کے دلوں میں جوکچھ تھا وہ بھی اللہ کو معلوم تھا، اس لئے اس نے ان پر سکینت اتاردی اور ان کو انعام میں ایک قریبی فتح عطا فرمادی، اور غنیمت میں ملنے والے بہت سے مال بھی جو ان کے ہاتھ آئیں گے، اور اللہ اقتدار کا بھی مالک ہے ، حکمت کا بھی مالک ۔ بعد میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی واپسی کی اطلاع آئی اور اس افواہ کا غلط ہونا ثابت ہوا، اس خبر نے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑادی۔ (فتح الباری:۷/۳۴۵)مذکرات اور مصالحت اس کے بعد مختلف قسطوں اور مرحلوں میں قریش کے مختلف نمائندوں کے ذریعہ مذاکرات اور بات چیت کا عمل ہوتا رہا، بالآخر قریش کا نمائندہ سہیل بن عمرو آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مسلمانو! اب معاملہ آسان ہوجائے گا۔(بخاری: الشروط:باب الشروط فی الجہاد) معاہدے کی دفعات وشرائط طے ہوئیں ، قریش کے نمائندے اس موقع پر بڑی بداخلاقی اور سختی کا مظاہرہ کرتے رہے، باربار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا پیمانۂ صبر لبریز ہوجاتا تھا، مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو قابو میں رکھا اور خود صبر وضبط کے کوہِ گراں بنے رہے۔ صلح نامہ لکھا جارہا ہے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کاتب ہیں ، وہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سے آغاز کرتے ہیں ، سہیل نے اعتراض کردیا ہے کہ ’’بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ‘‘ لکھا جائے، ہم ’’رحمن ورحیم‘‘ نہیں مانتے، ایسا ہی کیا گیا، پھر حضرت علی نے ’’محمد رسول صلی اللہ علیہ و سلم للّٰہ ‘‘ کے الفاظ لکھے ہیں ، سہیل نے کہا کہ:’’رسول صلی اللہ علیہ و سلم للّٰہ‘‘ کا لفظ کاٹ دو، اگر ہم تم کو رسول مانتے تو یہ نوبت ہی کیوں آتی؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو حکم دیا کہ کاٹ دو، وہ بولے کہ:’’وَاللّٰہِ لَا أَمْحُوْہُ أَبَدًا‘‘بخدا میں تو کبھی نہ کاٹوں گا، آپ صلی اللہ