بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
ابوسفیان کی قیادت میں قریش مکہ، غطفان، بنو اسد، بنو سعد سمیت متعدد قبائل پر مشتمل دس ہزار مسلح اور تیار فوجیوں کا یہ جتھا مدینہ روانہ ہوا ہے۔خندق کا مشورہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع ملتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم مشورہ طلب فرماتے ہیں ، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ہمارے ہاں ایران میں ایسے نازک موقعوں پر خندق کھود کر شہر کا دفاع کیا جاتا ہے، مدینہ کے تین جانب مکانات اور کھجور کے باغات تھے، جو فصیل کا کام پورا کرتے تھے، صرف شام کی سمت کھلی ہوئی تھی، اُدھر خندق کھودی جاتی ہے تو حفاظت ہوجاتی ہے، حضرت سلمان کی رائے متفقہ طور پر بہ نگاہِ تحسین دیکھی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی کا فیصلہ فرمادیا۔ (طبقات ابن سعد:۲/۴۷،الرحیق المختوم:۴۶۸-۴۷۰، سیرت ابن ہشام:۲/۲۲۴) اب صحابہ کی جماعت خندق کھودنے میں مصروف ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حدود قائم فرمادی ہیں ، خط کھینچ کر دس دس گز زمین تقسیم فرمادی ہے۔ (فتح الباری:۷/۳۰۵) ساڑھے پانچ کلومیٹر لمبی،ساڑھے تین میٹر گہری اور چارمیٹر چوڑی خندق کھودی گئی ہے، اتنی گہرائی ہے کہ پانی نکل آیا ہے۔(تاریخ طبری:۳/۴۵) موسم سرد ہے، ہوائیں تیز ہیں ، زمین پتھریلی ہے، مسلمان فاقے میں ہیں ؛ لیکن ان کے جوش وخروش اور جذبہ وولولہ کا عجب عالم ہے۔ایمانی جذبہ آقائے نامدارسرکار دو عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم بنفس نفیس خندق کی کھدائی میں مصروف ہیں ، صحابہ جذبۂ ایمانی سے سرشار یہ شعر پڑھتے ہیں : نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّداً عَلَی الْجِہَادِ مَا بَقِیْنَا أَبَداً