بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اسی سعی کے دوران عاشقانِ رسول دیدار رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے شوق میں ہجوم لگاتے جارہے ہیں ، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اونٹنی پر سوار ہوگئے ہیں ؛ تاکہ کوئی آنکھ ایسی نہ بچے جسے دیدارِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سعادت نصیب نہ ہوجائے۔منی اور عرفات آمد ۸؍ذی الحجہ کو یہ قافلہ حج کے احرام میں منیٰ پہنچتا ہے، ظہر سے لے کر اگلے دن فجر تک وہیں قیام ہوتا ہے، اب ۹؍ذی الحجہ کی صبح ہے، یومِ عرفہ ہے، حسن اتفاق کہ جمعہ کا دن ہے، کاروان شوق عرفات پہنچتا ہے، ظہر وعصر کی نماز امامت نبوی میں ظہر کے وقت میں ایک ساتھ ادا ہوئی ہے۔عرفات کا جامع خطبہ اس کے بعد آقا صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے ہیں ، اسلام کی تاریخ میں پہلی بار اتنا بڑا مجمع سامنے ہے، توحید کے پرچم کے زیرسایہ نبوی قیادت میں اتنا بڑا یہ پہلا اجتماع ہے۔ یہ خطبہ اسلامی زندگی کا پورا نقشہ کھینچتا ہے، اس کے ذریعہ اسلام کی بنیادیں واضح اور شرک وجہالت کی بنیادیں منہدم کی جارہی ہیں ، آپ پورا خطبہ پڑھیں تو ایسا محسوس ہوگا کہ مؤمنانہ نظامِ زندگی کا انتہائی جامع مرتب اصولی منشور ہے، اور دریا کو بڑی خوب صورتی اور سلیقے سے کوزے میں سمیٹ دیا گیا ہے، قیامت تک آنے والی پوری امت کے لئے یہ خطبہ مشعل راہ ہے، رسوم جاہلیت کی نفی کے ساتھ حیاتِ انسانی کے انفرادی واجتماعی، معاشرتی ومعاشی، فکری وعملی اور سیاسی وعمرانی گوشوں کو معجزانہ اجمال کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے۔ (۱)اس خطبہ میں سب سے پہلے تو یہ فرمایا کہ لوگو! میرا خیال ہے کہ آئندہ میں اور تم اس مجلس میں اکٹھے نہ ہوسکیں گے، گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے فراق کی پیش گوئی فرمادی تھی، اور جو اسے سمجھ رہے تھے ان کے دلوں پر قیامت گذر رہی تھی۔ (سیرت ابن ہشام:۲/۶۰۳)