بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
ظلم بڑھتا گیا ابوطالب اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد اب مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کھل کر ستانا شروع کردیا، گالیاں ، غلاظتیں ، کوڑے، تشدد، ظلم، خاک ڈالنا، تھوکنا، پتھر پھینکنا، دست درازی، یہ سارے سلسلے پہلے سے بڑھ گئے۔ (محسن انسانیت: نعیم صدیقی:۱۹۱)سفر طائف: حیات نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا سب سے جاں گسل مرحلہ طائف کی وادی کون بھول سکتا ہے؟ جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ظلم وستم کے طوفان کا سامنا ہوا تھا، روایات میں آتا ہے کہ شوال ۱۰؍ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم طائف جاتے ہیں ، امیدیں ہیں ، تمنا ہے، خواہش ہے کہ مکہ اسلام سے بے زار ہے، تو طائف ہی دین رحمت کے سائے تلے آجائے، طائف کے سرداروں ، قبیلہ ثقیف کے سربراہوں عبد یالیل، مسعود اور حبیب سے ملتے ہیں ، دعوتِ حق پیش کرتے ہیں ، مگر جواب میں طنز وملامت کے تیر سہنے پڑتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کہتے ہیں : میں تمہارا خیر خوا ہ بن کر آیا ہوں ، مگر طائف کی قوم اس ناصحانہ جذبے کا صلہ یہ دیتی ہے کہ جسم اقدس پر پتھروں کی بارش ہوتی ہے، پورا لباس خون سے تر ہوجاتا ہے، جوتے خون سے لبریز ہوجاتے ہیں : وہ ابر لطف جس کے سائے کو گلشن ترستے تھے یہاں طائف میں اس کے جسم پر پتھربرستے تھے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا تھا کہ کیا احد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آپ پر گذرا ہے، فرمایا: ہاں طائف کا دن، جب ظلم ہرحد سے تجاوز کرگیا تھا۔ (مشکوۃ المصابیح: الفضائل: باب المبعث) حضرت زید رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم زخموں سے چور ہیں ، زید