بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
ہجرت کا دسواں سال اب ہمارا سفر ہجرت کے دسویں سال تک آپہنچا ہے۔وفد بجیلہ کی آمد یہ سال بھی وفودِ عرب کی آمد کا سال رہا ہے، اسی سال رمضان المبارک میں حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں ڈیڑھ سو افراد پر مشتمل وفد بجیلہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں حاضر ہوا ہے، آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وفد کے آنے سے کچھ پہلے ہی آنے کی بشارت صحابہ کو سنادی ہے، وفد آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت جریر سے آنے کا مقصد دریافت کیا ہے، انہوں نے عرض کیا کہ ہمارا مقصد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست حق پرست پر قبول ایمان کا شرف پانا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر اپنی مبارک چادر ان کے لئے بچھادی ہے، اور صحابہ کو حکم فرمایا ہے : اِذَا جَائَ کُمْ کَرِیْمُ قَوْمٍ، فَاَکْرِمُوْہُ۔ جب تمہارے پاس کسی قوم کا معزز آدمی آئے تو اس کا اکرام کرو۔ حضرت جریر سمیت پورے وفد نے قبول اسلام کیا ہے ، انہیں ’’یُوْسُفُ ہٰذِہِ الاُمَّۃِ‘‘ کا لقب ملا ہے، خود ان کا بیان ہے کہ جب بھی آقا صلی اللہ علیہ و سلم مجھے دیکھتے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی تھی۔ (البدایۃ والنہایۃ:۵/۱۵۴، بخاری:ا لمناقب:باب ذکر جریر)ذوالخلصہ کا انہدام حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ: ذو الخلصہ (بنوبجیلہ کے بڑے بت خانے) کو منہدم کرنے کی ذمہ داری تمہاری ہے، چناں چہ حضرت جریر ۱۵۰؍ سواروں