بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
ضروری سمجھا کہ رومیوں کو حملہ کرنے میں پہل کا موقع نہ دیا جائے اور نہ انہیں عرب کی سرحد میں آنے دیا جائے، قیصر روم کی حکومت اس دور کی سپرپاور تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا رعب مسلمانوں کے دلوں سے ختم کردینے کے مقصد سے اقدامی جہاد کا فیصلہ فرمایااور دیگر جہاد کے مواقع پر جنگی حکمت عملی کے تحت اختیار کئے جانے ’’توریہ‘‘ (جنگی مقام اور دیگر حساس امور کو صیغۂ راز میں رکھنے) کے طریقے کے بجائے اس موقع پر سب کچھ واضح طور پر بیان فرمادیا کہ مسلمانوں کو تبوک جیسے دور دراز مقام تک جانا ہے، اور مقابلہ ایسی طاقت سے ہے جس کی حکومت آدھی دنیا پر ہے۔(بخاری:المغازی:باب حدیث کعب بن مالک)لازمی فوجی بھرتی کا اعلان آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ منورہ میں ’’ نفیر عام‘‘ (لازمی فوجی بھرتی اور جنگی شرکت) کا اعلان فرمادیا اور واضح کردیا کہ جو مسلمان شرعاً معذور نہیں ہے اور اس جنگ میں شریک ہوسکتا ہے وہ تیاری کرلے، بس اس اعلان نے گویا بجلی دوڑادی، مدینہ اور اطراف کے اہل ایمان پورے جذبۂ ایمانی اور شوقِ جہاد سے معمور ہوکر تیار ہوگئے۔اس وقت کی موجودہ صورت حال غور فرمائیے! جس وقت اس غزوہ کا اعلان ہوا ہے، اس وقت کی صورتِ حال کیا ہے؟ گرمی کی شدت، دھوپ کی تمازت، موسم کی ناسازگاری، معاشی بحران، باغات میں کھجور تیار ہے، اور مدینہ کی پوری تجارت اسی کھجور کی فروخت پر منحصر ہے، مزید سات سو میل کا طویل اور پرمشقت سفر درپیش ہے، ہر مجاہد کے پاس سواری بھی نہیں ہے، ایک سواری میں کئی لوگ شریک ہیں ، مقابلہ وقت کی سب سے بڑی طاقت سے ہے۔ ایک طرف یہ حالات ہیں ، اور جذبۂ ایمان کمزور ہو، طبیعت بہانہ جو ہو، مزاج حیلہ ساز ہو تو ان میں سے ہر چیز رک جانے کا بہانہ بن سکتی ہے، مگر قربان جائیے صحابہ کے کاروان