بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کاندھوں پر اصلاح وانقلابِ عالم کی عظیم ذمہ داریاں رکھ دی جائیں ، اس کی علامتیں سامنے آرہی تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں فرشتے نظر آتے تھے، راستوں کے پتھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کرتے تھے، جو خواب آپ صلی اللہ علیہ و سلم دیکھتے تھے اس کی بالکل سچی تعبیر سامنے آرہی تھی، دنیا سے بے رغبتی بڑھ رہی تھی، جلوتوں سے وحشت ہوتی جارہی تھی، اضطراب طاری ہورہا تھا، ایک مبہم بے چینی چھائی جارہی تھی، خلوت پسند ہوتی جارہی تھی،یہ علامتیں تھی جو سامنے آرہی تھی، مستقل کئی کئی دن تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم جبل النور کے غار حراء میں مقیم رہتے تھے، سوچتے رہتے تھے، تفکر وتدبر میں مشغول رہتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دل ودماغ کا تزکیہ ہورہا تھا، وہ دل جو تجلی گاہِ وحی بننے والا تھا، صاف وتیار کیا جارہا تھا، نبوت کی ذمہ داریاں نبھانے کی استعداد پختہ کی جارہی تھی۔منصب نبوت سے سرفرازی کامرحلہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش کا اکتالیسواں سال تھا، سترہ رمضان کی تاریخ تھی، ۶؍اگست ۶۱۰ء، پیغام الٰہی آگیا، تاج نبوت عطا کردیا گیا، انسانیت کے انقلاب کا فیصلہ کردیا گیا، حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے،فرمایاپڑھئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : مَا أَنَا بِقَارِئٍ۔ میں پڑھ نہیں سکتا۔ اس پر حضرت جبرئیل ؑنے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اتنی زور سے دبایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طاقت جواب دینے لگی،پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو چھوڑا اور دوبارہ کہا کہ پڑھئے،آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : مَا أَنَا بِقَارِئٍ۔ میں پڑھاہوا نہیں ہوں ۔ اس پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دوبارہ زور سے بھینچا، یہاں تک کہ