بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اجتماعیت کو فروغ دینے اور حوصلوں کو بڑھانے کا بہت مؤثر ذریعہ بھی ہے۔ ساتھ ہی اس خطبے کے مندرجات نے امت کے سامنے یہ حقیقت بھی آشکارا کی ہے کہ مؤمن کا اصلی ہدف اللہ ورسول کی رضا ہونی چاہئے، متاعِ دنیا بے قیمت اور قرآن کی زبان میں ’’متاع قلیل‘‘ اور ’’متاع الغرور‘‘(دھوکے کا سامان) اور حدیث کی زبان میں مکھی اور مچھر کے پر سے بھی زیادہ بے وقعت ہے، کاش امت اس حقیقت کو سمجھ لے، اور مال کے اس فتنے سے محفوظ ہوجائے، جس نے چَوطرفہ امت کو اپنی تباہی کے گھیرے میں لے رکھا ہے۔عمرۂ جعرانہ غزوۂ حنین وطائف سے فراغت کے بعد آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے مقام جعرانہ سے ۱۸؍ذی قعدہ ۸؍ہجری کو احرام باندھا، مکۃ المکرمہ تشریف لے گئے، عمرہ ادا کیا، اس کے فوراً بعد مدینہ منورہ واپسی کا سفر شروع ہوا، اس طرح وہ سفر جو ۱۰؍رمضان المبارک ۸؍ہجری کو مدینہ سے شروع ہوا تھا، ۲۷؍ذی قعدہ ۸؍ہجری کو مدینہ منورہ پہنچ کر ختم ہوا۔(شرح الزرقانی:۳/۴۱) روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں ایک حج ادا کیا ہے، جو ’’حجۃ الوداع‘‘ کہلاتا ہے، اور کل ۴؍عمرے فرمائے، ایک تو عمرہ حدیبیہ اور دوسرا عمرۃ القضاء، تیسرا عمرۂ جعرانہ اور چوتھا عمرہ حجۃ الوداع کے ساتھ ادا ہوا۔(بخاری:الحج: باب کم اعتمر النبی، البدایۃ والنہایۃ:۴/۷۶۶)صاحبزادے حضرت ابراہیمؓ کی ولادت اسی سال ذی صلی اللہ علیہ و سلم لحجہ ۸؍ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی باندی حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے تیسرے صاحب زادے حضرت ابراہیم کی ولادت ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ساتویں دن کے عقیقے میں دو مینڈھے ذبح فرمائے، پیدائش کے ۱۸؍ماہ کے بعد شیرخواری کی