بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
وفات کا یقین ہی نہیں آتا ہے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ گویا سکتہ کے عالم میں ہیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ بالکل خاموش اورسوگوار ہیں ، حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ اس حادثے کی تاب نہ لاکر دنیا سے چل بسے ہیں ، حضرت عبد اللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ روتے روتے بینائی کھوچکے ہیں ، ازواجِ مطہرات پر تو گویا غم والم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے، انصار گریہ کناں ہیں ، مہاجرین زار وقطار رو رہے ہیں ۔ (اصح السیر:۵۸، سیرت احمد مجتبی:۳/۴۷۱) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاعجب عالم اضطراب میں ہیں ، اور کہہ رہی ہیں : یَا أَبَتَاہُ أَجَابَ رَبًّا دَعَاہُ، یَا أَبَتَاہُ مَنْ جَنُّۃِ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاہُ، یَا أَبَتَاہُ إِلَی جِبْرَئِیْلَ نَنْعَاہُ۔(بخاری: المغازی: باب مرض النبی) ہائے ابا جان! جنہوں نے اپنے رب کی پکار پر لبیک کہہ دیا، ہائے ابا جان! جن کا ٹھکانہ جنت الفردوس ہے، ہائے اباجان! ہم جبرئیل کو آپ کی وفات کی خبر دیتے ہیں ۔حضرت عمرؓ کی بے خودی اور حضرت ابوبکرؓ کی عزیمت حضرت عمر رضی اللہ عنہ بے خودی کے عالم میں ہیں ، اعلان کررہے ہیں کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات نہیں ہوئی ہے، وہ اللہ سے ملنے گئے ہیں ، ضرور واپس آئیں گے، جویہ کہے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہوگئی ہے، میں اسے قتل کردوں گا، عجیب حالات ہیں ، اتنے میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آپہنچے ہیں ، حجرۂ اقدس میں جاتے ہیں ، لرزتے ہونٹوں سے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے ہونٹوں کا بوسہ لیتے ہیں ، اور عرض کرتے ہیں : بِاَبِیْ اَنْتَ وَ اُمِّي: طِبْتَ حَیًّا وَ مَیِّتًا، وَانْقَطَعَ لِمَوْتِکَ مَا لَمْ یَنْقَطِعْ لِمَوْتِ اَحَدٍ مِنَ الاَنْبِیَائِ مِنَ النُّبُوَّۃِ، فَعَظُمْتَ عَنْ