بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
ہیں ، کمزوروں کابوجھ اٹھاتے ہیں ،مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہ حق کی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔ حضرات! حضرت خدیجہؓ کے یہ تسلی آمیز جملے کردار نبوی کی انتہائی حسین اور موثرمنظر کشی کرتے ہیں ،غور فرمائیے: پیغمبر علیہ السلام کے اس کردار کا خلاصہ خدمت خلق ہے، اللہ نے دعوت دین کے مرحلے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لگانے سے پہلے خدمت خلق کی راہ پر لگایا، اس طرح یہ ترتیب طے کردی کہ دعوتِ حق کی منزل خدمت خلق کے راستے سے ہموار ہوتی ہے، آج دعوتی میدانوں میں کام کرنے والوں کے لئے یہ ایک سبق ہے، یہ ترتیب بدلے گی تو ہدف نہیں مل سکتا، غیروں نے افسوس خدمت خلق کا میدان ہتھیالیا، اور ہم اس سے غافل ہوگئے۔ یہ پیغمبر علیہ السلام کے اخلاق وکردار کا واضح نقشہ تھا، گویا یہ ایک پیغام تھا جو آئندہ اس دین کی حامل امت کو دیا جارہا تھا، اور ساتھ یہ ضمانت بھی دی جارہی تھی کہ جو قوم، جو افراد، جو معاشرے اس کردار کے سانچے میں ڈھل جائیں گے، کبھی بے عزت، رسوا اور بے یار ومددگار نہیں ہوں گے؛ بلکہ کامیابی قدم چومے گی اور اللہ کی مدد شامل حال رہے گی۔حضرت ورقہ کی تصدیق حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا اپنے عم زادورقہ بن نوفل کے پاس آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لے جاتی ہیں ، ورقہ زمانۂ جاہلیت میں عیسائی ہوگئے تھے، عربی، عبرانی، سریانی زبانیں جانتے تھے، انجیل کا عربی میں ترجمہ کرتے تھے، شرک کے ماحول میں وہ توحید کے راستے پر گامزن تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوری داستان سنائی،ورقہ اچھل پڑے، بولے: ہٰذَا النَّامُوْسُ الَّذِيْ نَزَّلَ اللّٰہُ عَلَی مُوسیٰ، یَا لَیْتَنِي فِیْہَا جَذَعًا، یَالَیْتَنِي أَکُونُ حَیَّا إِذْ یُخْرِجُکَ قَوْمُکَ۔