بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
بے مثال استقامت حضرت انس بن نضر نے مسلمانوں کا یہ حال دیکھا تو فرمایا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ و سلم شہید کردئے گئے تو کیا ہوا، محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا رب تو شہید نہیں ہوا۔ مُوْتُوا عَلَی مَا مَاتَ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّیَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ تم بیٹھے کیا ہو؟ جس چیز پر آقا انے جان دی تم بھی دے دو۔ بس اس جملہ نے مجمع کا رخ موڑ دیا، پھر اسی حقیقت کو قرآن نے واضح کردیا: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُوْلٌ، قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ، أَفَإِنْ مَاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ، وَمَنْ یَنْقَلِبْ عَلَی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا، وَسَیَجْزِی اللّٰہُ الشَّاکِرِیْنَ۔ (آل عمران/ ۱۴۴) اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم ایک رسول ہی توہیں ، ان سے پہلے بہت سے رسول گزرچکے ہیں ، بھلا اگر ان کاانتقال ہوجائے یا انہیں قتل کردیا جائے توکیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرے گا وہ اللہ کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، اور جو شکر گزار بندے ہیں اللہ ان کو ثواب دے گا۔ حضرت انس یہ کہہ کر میدان میں گھس گئے، حضرت معاذ ملے، پوچھا :کہاں کا ارادہ ہے؟ بولے: مجھے احد کے سامنے سے جنت کی خوشبو آرہی ہے، بالآخر شہید ہوگئے، ان کے جسم پر ۸۰؍سے زائد زخم تھے، شناخت مشکل تھی، بہن نے انگلیوں کے پورؤوں سے پہچانا تھا۔ (زاد المعاد:۲/۹۳، بخاری:المغازی:باب غزوۃ احد) بعد میں جب اس افواہ کا غلط ہونا ثابت ہوا تو مسلمانوں حوصلے بلند ہوگئے، اور انہوں