بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
انتقال ہوجاتا ہے، آپ غور فرمائیے، ابھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم شکم مادر میں تھے، والد رخصت ہوگئے، ۶؍سال کے ہوئے تو والدہ وفات پاگئیں ، ۸؍سال کے ہوئے تو دادا کا انتقال ہوگیا، اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تمام ظاہری سہاروں سے محروم کرکے براہِ راست اپنا سہارا عطا کردیا تھا، اس کی حکمت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے علمی وعملی کمالات، اخلاق اورمراتب کو دیکھ کر کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ والدین کی تربیت کا نتیجہ ہے، دادا کی تربیت کا فیض ہے، استاذ کی تربیت کا ثمرہ ہے، نہیں : انبیاء میں اور ہم میں فرق یہی ہے، انبیاء کا معلم، مربی، استاذ، رہنما براہِ راست اللہ ہوتا ہے، وہ دنیا میں کسی کے شاگرد نہیں ہوتے، دنیا میں کوئی ان کا استاذ نہیں ہوتا، ان کو تمام کمالات بلاواسطہ بارگاہِ الٰہی سے عطا ہوتے ہیں ، تمام معلومات اور رہنمائیاں بلاواسطہ براہِ راست اللہ سے ملتی ہیں ، اسی لئے ان کو نمونہ قرار دیا جاتا ہے، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: أَدَّبَنِيِ رَبِّيْ فَأَحْسَنَ تَادِیْبِي، وَعَلَّمَنِيْ رَبِّيْ فَأَحْسَنَ تَعْلِیْمِي۔(کنزالعمال:الفضائل:۳۱۸۹۲) میرے رب نے مجھے ادب سکھایا اور خوب ادب سکھایا، میرے رب نے مجھے علم سکھایا اور خوب علم سکھایا۔ اِنَّ اللّٰہَ بَعَثَنِیْ لِتَمَامِ مَکَارِمِ الْاَخْلاَقِ وَ کَمَالِ مَحَاسِنِ اْلاَفْعَالِ۔(مشکوۃ المصابیح:باب فضائل سید المرسلین) بلاشبہ اللہ نے مجھے اخلاق حسنہ ،اعمال صالحہ اور محاسن افعال کی تکمیل کے لئے مبعوث اور منتخب فرمایا ہے۔مہربان چچا کی تربیت میں دادا کی وصیت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی کفالت کا حق بڑی خوبی سے ادا کیا، چالیس سال سے زائد عرصے تک وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے ڈھال بنے رہے، یہ وہ دور تھا جب ابوطالب معاشی بحران کا شکار تھے۔