بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
بعض جوشیلے افراد کا ناز اور اس کی سزا اب تک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ لشکر اسلام دشمن سے ۳؍گنا بھاری ہے، مسلمان ۱۲؍ہزار اور دشمن ۴؍ہزار ہیں ، طبعی طور پر کثرتِ تعداد اور مضبوط تیاری نے مسلمانوں کو خود اعتمادی اور اطمینان سے لبریز کردیا ہے، کچھ جوشیلے نومسلم افراد کی زبانوں پر یہ فخریہ جملہ آگیا ہے: لَنْ نُغْلَبَ الْیَوْمَ مِنْ قِلَّۃٍ۔ آج ہم تعداد کی قلت کی وجہ سے ہرگز مغلوب نہیں ہوں گے۔ (سیرت المصطفیٰ :۳/۵۷، بحوالہ طبقات ابن سعد) اس جملہ میں فخر وناز کا وہ جذبہ شامل ہے جو اللہ کو ناپسند ہے۔ چناں چہ جنگ کے ابتدائی مرحلے میں اس کی سزا ملی، ۱۰؍شوال کو یہ لشکر وادی پہنچا، اور رات میں وہیں مقیم ہوا، دشمنوں نے راتوں رات پہاڑوں پر اپنے مورچے جمالئے، ہر گھاٹی کے سرے پر ماہر تیر انداز بٹھادئے، اور مسلمانوں کا لشکر جب صبح کو وہاں سے گذرا تو خفیہ تیر اندازوں نے مسلسل تیروں کی بارش برسادی، حملہ اِس قدر غیر متوقع اور ناگہانی تھا کہ مسلمانوں کی صفیں درہم برہم ہونے لگیں ، حواس باختگی اور سراسیمگی پھیل گئی، قدم اکھڑنے لگے، فوج کے اگلے حصہ میں بھگدڑ مچنے لگی، غیر تربیت یافتہ نومسلموں کی وجہ سے یہ صورتِ حال سامنے آئی، حالات بہت نازک تھے۔ (تاریخ طبری:۱/۴۱۳، تاریخ ابن خلدون: ۱/۱۶۸، البدایۃ و النہایۃ :۴/۳۱۸)شجاعت نبوی مگر اس خطرناک مرحلے میں آقائے نامدار سرورکونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی ثابت قدمی، دلیری اور شجاعت کا فقید المثال نمونہ سامنے آیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے چند جاں نثار اصحاب