بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
بہت سے لوگ مسلمان ہوئے، حضرت طلحہ، زبیر ،عثمان، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، خباب بن ارت، بلال حبشی، صہیب رومی، مصعب بن عمیر، سعید بن زید،خالد بن سعید، ارقم بن ابی الارقم،عبد اللہ بن مسعود،جعفر بن ابی طالب،ابو عبیدہ بن الجراح، ابو سلمہ بن عبد الاسد، عثمان بن مظعون اور عبیدہ بن حارثث وغیرہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے، یہ سابقین اولین تھے، قافلہ بڑھتا رہا، کلمۂ اسلام پڑھتے ہی ہر صاحب ایمان اپنے کو دعوت کے عمل میں لگا رہا تھا۔پہلا دعوتی مرکز اس دور میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے جاں نثار صحابی حضرت ارقم صکے محفوظ مکان ’’دار الارقم‘‘ کو اپنی دعوت اور تحریک کا مرکز بنایا، یہ صفا پہاڑی پر واقع تھا، تمام دعوتی کام یہیں سے انجام پارہے تھے، اسلام کی تاریخ میں دار الارقم اسلام کا پہلا مرکز تھا، حضرت ارقم صنے اسے مسلمانوں کے لئے وقف کردیا تھا، اسے تاریخ اسلام کے پہلے ’’وقف‘‘ کا مقام بھی حاصل ہے۔حضرت ابوذر غفاریؓ کی طلب اور گوہر مراد کی دستیابی اسی ابتدائی مرحلہ میں صحابی جلیل حضرت ابوذر غفاریؓ بھی حلقہ بگوش اسلام ہوتے ہیں ، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام سن کر اپنے بھائی کو تلاشِ حق میں مکہ بھیجا تھا، مگر بھائی کی رپورٹ سے زیادہ اطمینان نہیں ہوا، خود مکہ تشریف لائے، بچتے بچاتے کئی دنوں کے انتظار کے بعد حضرت علی صکے ہمراہ بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے، دارالارقم میں پہنچے، زبان نبوت اسے پیغام حق سنا، فوراً حلقہ ٔ اسلام میں داخل ہوگئے، دل ایمان سے معمور ہوا، تو جذب کی کیفیت طاری ہوگئی؛ کعبۃ اللہ کے سائے میں ببانگ دہل عقیدۂ توحید کا اعلان کردیا، دشمنوں کا پورا مجمع پل پڑا، وہ پٹتے رہے، اور توحید کی صدا بلند کرتے رہے، حضرت