بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
وَ دَعَوْتَنِیْ وَ زَعَمْتَ أَنَّکَ نَاصِحِیْ وَ لَقَدْ صَدَقْتَ وَ کُنْتَ ثَمَّ أَمِیْنَا وَ عَرَضْتَ دِیْنًا لَا مَحَالَۃَ أَنَّہُ مِنْ خَیْرِ أَدْیَانِ الْبَرِیَّۃِ دِیْناَ لَوْ لَا الْمَلاَمَۃُ أَوْ حِذَارُ مَسَبَّۃٍ لَوَجَدْتَنِی سَمْحَاً بِذَاکَ مُبِیْناَ بخدا یہ دشمن تمہارے پاس اپنی جمعیت سمیت بھی ہرگز نہیں پہونچ سکتے یہاں تک کہ میں مٹی میں دفن کردیا جاؤں ، تم اپنی بات کھلم کھلا کہو ، تم پر کوئی قدغن نہیں ، تم خوش ہوجاؤ اور تمہاری آنکھیں اس سے ٹھنڈی ہوجائیں ، تم نے مجھے دعو ت دی، اور تمہارا خیال ہے کہ تم میرے خیر خواہ ہو، واقعہ یہ ہے کہ تم نے سچ کہا، اور پھر تم تو شروع سے امانت دار رہے ہو، تم نے وہ دین پیش کیاہے جو یقینی طور پر دنیا کے تمام دینوں میں سب سے بہتر ہے ، اگر اندیشۂ ملامت نہ ہوتا یا سبکی کا ڈر نہ ہوتا تو تم اس دین کو قبول کرنے میں مجھے برملا طور پر فراخ دل پاتے۔ (مختصر السیرۃ:شیخ محمدبن عبد الوہاب: ۶۸، عکس سیرت :مترجم خلیل الرحمن/۱۳)ایک زندہ پیغام: عقیدۂ حق پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں پیغمبر علیہ السلام کے اس جواب نے قیامت تک کے لئے یہ فکر واضح کردی کہ عقیدۂ برحق وہ چیز ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا، جس کے لئے کوئی بھی پیش کش قبول نہیں کی جاسکتی، آج امت جن حالات سے دوچار ہے، ان میں سب سے زیادہ یلغار ہمارے عقیدے پر ہورہی ہے، سیرت کا یہ باب ہمارے سامنے یہ پیغام دے رہا ہے کہ کبھی بھی اپنے عقیدے کے تعلق سے کوئی لچک اور نرمی پیدا مت ہونے دو۔