بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
پر مسلمانوں کی دھاک جم گئی، ان کی طرف سے مصالحتی مذاکرات ومعاہدات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور اسلام کو واضح تقویت حاصل ہوئی۔قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک جنگ کے اختتام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم ۳؍دن بدر میں ٹھہرے، پھر واپس ہوئے ہیں ، ہمراہ قیدیوں کا قافلہ ہے، مدینہ میں فتح کی خوش خبری پہنچ چکی ہے، مدینہ منورہ کے یہود اور مارِ آستین منافقوں کے سینوں میں عداوتیں بڑھ گئی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قیدیوں کی دیکھ بھال کا کام صحابہ پر تقسیم فرمادیا، اور حسن سلوک کی تاکید کی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایات کے مطابق ان جنگی قیدیوں کے ساتھ ایسا حسن سلوک صحابہ نے کیا کہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، صحابہ نے خود بھوکے رہ کر ان قیدیوں کو کھلایا۔ ان قیدیوں میں دو آدمی نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کو ان کے بے شمار جرائم کی وجہ سے راستے ہی میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے قتل کردیا گیا تھا۔(البدایۃ والنہایۃ :۳/۳۱۸، الرحیق المختوم:۳۵۵) باقی ۶۸؍قیدیوں کے ساتھ اکرام واعزاز کا بے مثال معاملہ ہوا، مدینہ منورہ آکر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قیدیوں کی بابت صحابہ سے مشورہ کیا، حضرت عمرؓ کی رائے یہ تھی کہ یہ کفر کے ستون ہیں ، ان کی سزا قتل ہے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فدیہ کے عوض رہا کرنے کی رائے دی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شانِ رحمت وعفو نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی رائے کو ترجیح دی۔(المستدرک:۳/۲۱) چناں چہ قیدیوں میں جو پڑھے لکھے لوگ تھے، ان کا فدیہ دس مسلمان بچوں کو پڑھانا طے ہوا۔(طبقات ابن سعد:۲/۱۴، شرح المواہب :زرقانی:۱/۴۴۲) یہ اقدام ایجوکیشن فار آل (سب کے لئے تعلیم) کی انقلابی مہم کے تحت ہوا، اس سے