بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
درمیان میں مختلف قبائل شامل ہوتے رہے؛ تاآں کہ تعداد ۱۰؍ہزار ہوگئی ہے۔ (فتح الباری:۸/۲) مقام ’’مَرُّ صلی اللہ علیہ و سلم لظَّہْرَانْ‘‘ پر یہ قافلہ خیمہ زن ہوتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے دس ہزار کی یہ فوج دور دور تک پھیل جاتی ہے، ہر گروہ نے الگ الگ چولہے سلگائے ہیں ، مکہ کے سردار دور سے یہ آگ دیکھ کر حیران ہیں ، تجسس میں قریب آتے ہیں ، تو لشکر اسلام کو خیمہ زن دیکھ کر ان کے حواس مختل ہوجاتے ہیں ، ابوسفیان بھی تجسس میں آئے ہیں ، ان کی ملاقات حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ہوجاتی ہے، حضرت عباس ان کو امان میں لے لیتے ہیں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نگاہ پڑتی ہے، وہ ابوسفیان کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہتے ہیں ، مگر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ابوسفیان کی امان مانگ لی ہے، ابوسفیان نے رات وہیں گذاری اور صبح کو کلمہ طیبہ پڑھ لیا اور حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ (الرحیق المختوم:۶۲۵الخ)فتح مبین ۲۰؍رمضان المبارک ۸؍ہجری مطابق ۱۱؍جنوری ۶۳۰ء جمعہ کا دن اسلام کی تاریخ کا وہ دن ہے کہ ع دن گنے جاتے تھے جس دن کے لئے ۱۰؍سال پہلے مظلومیت کے ساتھ مکہ سے رخصت ہونے والا پیغمبر اور اس کا کاروانِ حق آج فتح مبین کے ساتھ مکہ میں داخل ہورہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کہنے پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے لشکر اسلامی کی شوکت دکھانے کے لئے ابوسفیان کو ایک اونچے مقام پر کھڑا کردیا ہے، مسلمانوں کی فوجیں پوری وادی میں خاص ترتیب کے ساتھ چل رہی ہیں ، ابوسفیان نے یہ جاہ وجلال دیکھ کر کہا تھا : اے ابوالفضل :(عباس) تمہارے بھتیجے کا اقتدار کتنا عظیم ہے؟ اس پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: